بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گالیاں دینے والے شوہر سے طلاق لینا


سوال

میرا شوہر گھر اور باہر کے افراد کے سامنے مجھے گندی گالیاں دیتا ہے اور بے عزت کرتا ہے، ایک بچہ بھی ہے لیکن وہ لحاظ نہیں کرتا، کئی دفعہ کوشش کی کہ بات چیت سے معاملہ حل ہو جائے، مگر اس کے رویے میں فرق نہیں آیا، میں اس سے علیحدگی چاہتی ہوں،  لیکن بچے کا سوچ کے ہر دفعہ سمجھوتا کرتی ہوں، لیکن اس کی طرف سے مسلسل مایوسی ہی ملتی ہے، اگر میں اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کروں تو کیا یہ گناہ کافعل ہوگا؟ مہربانی فرما کر دین کی رو سے کوئی حل تجویز کریں؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی میں ناچاقی ہوجانے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ پہلے پہل میں آپس میں مل بیٹھ کر اختلاف دور کرنے کی کوشش کریں، پس اگر  وہ دونوں آپسی اختلافات ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں، تو حکم یہ ہے کہ دونوں کے  خاندانوں میں ایک ایک فرد کو منتخب کیا جائے، جو  ناچاقی ختم کرانے، اور جوڑ پیدا کروانے میں اپنا کردار ادا کریں، اگر تمام تر کوششوں کے باوجود ناچاقی بر قرار رہے، اور نباہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکے، تو پھر بیوی کے لیے اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کے مطالبہ کی اجازت ہوتی ہے، تاہم کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا جنت سے محرومی کا سبب ہے۔

 جیسا کہ "  سنن أبي داود"  میں ہے:

"حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة."

(كتاب الطلاق، باب في الخلع، ٢ / ٢٦٨، رقم الحديث: ٢٢٢٦، ط: المكتبة العصرية- صيدا- بيروت)

ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا: "جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے"۔

" مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"  میں ہے:

" ٣٢٧٩ - (عن ثوبان قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيما امرأة سألت زوجها طلاقا) : وفي رواية الطلاق أي لها أو لغيرها (في غير ما بأس) : وفي رواية من بأس أي لغير شدة تلجئها إلى سؤال المفارقة، وما زائدة للتأكيد (فحرام عليها رائحة الجنة) : أي: ممنوع عنها، وذلك على نهج الوعيد والمبالغة في التهديد، أو وقوع ذلك متعلق بوقت دون وقت أي لا تجد رائحة الجنة أول ما وجدها المحسنون، أو لا تجد أصلا، وهنا من المبالغة في التهديد، ونظير ذلك كثير قاله القاضي، ولا بدع أنها تحرم لذة الرائحة ولو دخلت الجنة."

( كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، ٥ / ٢١٣٦، ط دار الفكر، بيروت - لبنان)

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی جانب سے  تمام  تر کوششوں کے با وجود شوہر کے رویہ میں کوئی فرق نہ آتا ہو  اور سائلہ کے لیے اس کے ساتھ اب گزارے کی کوئی امید باقی نہ رہی ہو، تو اب اگر وہ اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس مطالبہ کی وجہ سے وہ گناہ گار نہ ہوگی۔

" مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:

"(ولا بأس به) أي بالخلع (عند الحاجة) بل هو مشروع بالكتاب والسنة وإجماع الأمة عند ضرورة عدم قبول الصلح وفي شرح الطحاوي إذا وقع بينهما اختلاف فالسنة أن يجتمع أهل الرجل والمرأة ليصلحا بينهما فإن لم يصلحا جاز له الطلاق والخلع وفيه إشارة إلى أن عدم الخلع أولى."

( باب الخلع، ١ / ٧٥٩، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403102183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں