بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاہک کو مارکیٹ سے چیز خرید کر زائد قیمت پر دینا


سوال

ہم ہول سیلر ہیں، ہمیں کوئی ریٹیلر  دوکاندار  فون کرتا ہے کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے، جس پر کبھی ہم دوکاندار کو کہتے ہیں  کہ میرے پاس نہیں ہے، ہاں مارکیٹ سے لے کر مطلوبہ چیز آپ کو فراہم کروں  گا، مگر اس پر مثلا 100 روپے لوں گا، جوکہ میرا منافع ہے۔

کبھی ہم دوکاندار کو  یہ نہیں بتاتے کہ مطلوبہ چیز موجود نہیں، بلکہ ہم مارکیٹ سے خرید کر اسے بتائے بغیر کچھ منافع رکھ کر دوکاندار کو فروخت کردیتے ہیں، اور کبھی اسے بتا دیتے ہیں، کہ مطلوبہ چیز مارکیٹ سے لے کر اتنی رقم اوپر رکھ کر   فراہم  کریں گے۔

کیا یہ کمائی حلال  ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر ہول سیلر مطلوبہ چیز اپنے پیسوں سے خریدتا نہیں ہے، بلکہ  ریٹیلر  کی ہی رقم سے خریدتا ہے، اور مثلا 100 روپے اپنا کمیشن یا حق الخدمت  طے کرتا ہے، تو ایسا کرنا  جائز ہے، اس صورت میں ہول سیلر کی حیثیت چونکہ  کمیشن ایجنٹ / بروکر کی ہوگی،  البتہ کمیشن  جائز  ہونے کے لئے  پہلے سے  کمیشن طے کرنا شرعا ضروری ہوگا۔

نیز  اگر ہول سیلر مطلوبہ چیز بازار سے اپنے پیسوں سے  خرید کر، یا ادھار خرید کر  اپنے قبضہ میں لینے کے بعد ریٹیلر کو متعین منافع مثلا 100 روپے بتا کر فروخت کرتا ہے، تو ایسے سودے کو شریعت کی اصطلاح میں بیع مرابحہ کہا جاتا ہے، جو کہ جائز ہے، اسی طرح  اگر ہول سیلر مطلوبہ چیز بازار سے نقد یا ادھار خرید کر اپنے قبضہ میں لینے کے بعد  ریٹیلر کو بتائے بغیر کچھ نفع رکھ کر، ریٹیلر سے مطلوبہ چیز کی قیمت طے کرکے فروخت کرتا ہے، (جسے اصطلاح شرع میں " بیع مطلق" کہا جاتا ہے) تو ایسا کرنا بھی جائز ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال

 [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه ."

( كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اهـ. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اهـ."

( كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، ٥ / ١٣٦، ط: دار الفكر)

فتح القدير على الهداية میں ہے:

"(قوله: المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الأول بالثمن الأول مع زيادة ربح."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ٦ / ٤٩٤،ط: دار الفكر)

فتح القدیر لابن الہمام میں ہے:

" والحد المَذكور: أعنِي مبادَلة المال بالمال عَلي وجهِ التَّراضِي بطريق الاكْتساب إنما هو حد الْبيع الَّذي هو عقد شَرعي وهو الْمجموع الْمركب من الإِيجاب والْقبول مع الارتباط الشرعي الحاصل بينهما."

( كتاب الوكالة، باب الوكالة في البيع و الشراء، فصل في البيع، ٨ / ٨٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں