بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ کو کٹوتی شدہ رقم میں اضافہ کے ساتھ وصول کرنے کا حکم


سوال

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ہرماہ جی پی فنڈ کی کٹوتی ہوتی ہے،اور سال پورا ہونے پر حکومت کی طرف سے اس پر 14پرسنٹ کا سود لگتا ہے،کیا یہ سود کھانا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  سرکاری ملازمین کی تنخواہ ہاتھ میں آنے سے قبل ہی اس میں سے کچھ مخصوص رقم جی پی فنڈ کے نام پر ان کے اختیار کے بغیرکاٹ لی جاتی ہو اور وہ اس کٹوتی کو بند بھی نہ کراسکتے ہوں،تو اس صورت میں چوں کہ وہ تنخواہ کے اتنے حصے کے مالک ہی نہیں بنے ہوتے،اس لیے اتنے حصے کو نفع کے ساتھ وصول کرناملازمین کےحق میں سود شمار نہیں کیاجائےگا،بلکہ یہ حکومت کی طرف سے تبرع شمار سمجھاجائے گا،تاہم چوں کہ اس رقم کا نفع حکومت عموماًسود ہی کی صورت میں وصول کرکے سرکاری ملازمین کو دیتی ہے،اس لیے اضافی رقم نہ لی جائے تو بہتر ہے۔

البتہ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ رقم ان کےقبضہ میں آنے کے بعد لی جاتی ہو،یاپھرتنخواہوں میں سے وہ مخصوص رقم ان کی اجازت اور اختیار سے کاٹی جاتی ہو،تو اس صورت میں اصل رقم کو وصول کرنا جائز ہوگا نفع کے نام سے سود وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔

"البحر الرائق"میں ہے:

"(قوله والأجرة لا تملك بالعقد) لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنفعة ... (قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة."

(ص:٣٠٠،ج:٧،کتاب الإجارة،ط:دار الكتاب الإسلامي)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه."

(ص:٩٩،ج:٥،كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،مطلب فيمن ورث مالا حراما،ط:ايج ايم سعيد)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى المقرض: فمنها القبض؛ لأن القرض هو القطع في اللغة، سمي هذا العقد قرضا لما فيه من قطع طائفة من ماله، وذلك بالتسليم إلى المستقرض؛ فكان مأخذ الاسم دليلا على اعتبار هذا الشرط."

(ص:٣٩٤،ج:٧،کتاب القرض،فصل فی شرائط رکن القرض،ط:دار الكتب العلمية)

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني"میں ہے:

"قال محمد رحمه الله في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة كان يكره كل ‌قرض ‌جر منفعة قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض عادلية صحاحاً أو ما أشبه ذلك، فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد، فأعطاه المستقرض أجود مما عليه، فلا بأس به."

(ص:١٢٦،ج:٧،کتاب البیوع،الفصل الثالث والعشرون،ط:دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں