بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ کا حکم


سوال

میں محکمہ ایجوکیشن میں جونئیر انگلش ٹیچر کی آسامی پر تعینات ہوں، ہماری تنخواں سے جی پی فنڈ کے نام پر ماہوار کٹوتی ہوتی ہے، حکومت اس پر انٹرسٹ یا سودی کاروبار کرتی ہے، جس کا منافع ملازم کو بھی ملتا ہے، میں نے فارم بھرتے وقت انٹرسٹ کے خانے میں نو لکھا، اب مجھے ان کاروبار کا منافع نہیں ملتا۔ اب ایک دوست کہتا ہے کہ حکومت ویسے بھی تمہارے جی پی فنڈ کی رقم پر سودی کاروبار کرتی ہے تو کیوں نہ آپ دوبارہ فارم بھر کر انٹرسٹ کا خانہ بھر دیں تو آپ کو بھی منافع ملے گا۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ جی پی فنڈ کی رقم پینشن کے وقت ملتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

جواب

جی پی فنڈ کی دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔

اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا ملازم کے اختیار میں ہو اور ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کروائے اور اس رقم پر اضافہ مل جائے کمپنی یا ادارہ کی طرف سے کہ ہم اس کو ڈبل کرکے واپس کریں یا چالیس فیصد زیادہ کرکے دیں یا انشورنس میں ڈال کر اس پر اضافہ دیں گے تو اس اختیاری جی پی فنڈ کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم حلال ہے، اصل رقم کے علاوہ کمپنی  اپنی طرف سے جو رقم شامل کررہی ہے اس کا لینا بھی جائز ہے۔ لیکن اصل اور کمپنی کی طرف سے شامل کردہ رقم کو کمپنی یا ادارہ، انشورنس کمپنی یا بینک میں جمع کرے تو اس انشورنس یا سود والی اضافی رقم کا حکم یہ ہے کہ  چوں کہ یہ جی پی فنڈ اختیاری ہے، اس صورت میں کمپنی یا ادارہ ملازم کے لیے وکیل بن جائے گا،  اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوتاہے، لہٰذا بیمہ کمپنی یا بینک میں رقم منتقل ہونے کے بعد ملازم اس رقم کا مالک بن جائے گا، اب اس رقم پر جو اضافہ کے ملے گا وہ شرعاً سود ہی ہے، اس کا استعمال ملازم کے لیے ناجائز ہے۔

اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا آدمی کے اختیار میں نہ ہو اور کمپنی یا ادارہ جی پی فنڈ کی مد میں پیسے کاٹے اور اصل پیسے کے بجائے دوگنے پیسے دے یا اس سے زیادہ دے تو یہ اصل رقم حلال ہے اور اس پر اضافہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، اس میں ملازم کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ ملازم کے لیے عطیہ کی طرح ہے، اس کا لینا ملازم کے لیے جائز ہے۔

اس صورت میں جب کہ جی پی فنڈ کٹنا لازم ہو، لیکن اسے انٹرسٹ فری کروانے (یعنی اس پر سود نہ لینے ) کا اختیار ملازم کو ہو (جیسا کہ آپ نے سوال میں لکھا ہے) تو ملازم پر لازم ہے کہ اپنے جی پی فنڈ کو انٹرسٹ (سود) فری کروائے، اس صورت میں اضافی رقم لینا جائز نہیں ہوگا۔  لہٰذا آپ کے لیے اب اجازت نہیں ہے کہ آپ دوبارہ فارم بھر کر اضافی رقم لینے کی درخواست دیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں