بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ پر ملنے والے اضافے کا حکم


سوال

میں سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ سے کچھ رقم جی پی فنڈ کے نام سے کاٹی جاتی ہے، شروعات میں نہیں کاٹی جاتی تھی ،مگر تقریباً تین سال کے بعد میرے کچھ دوستوں نے سمجھایا کہ جی پی کٹواؤ تاکہ ریٹائرمنٹ میں ایک ساتھ ملے تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ جی پی فنڈ سود ہے تو میں نے خود کٹوانا شروع کردیا ،اب مجھے علم ہوا ہے کہ جی پی فنڈ سود ہے میں نے کٹوتی بند کروانے کی کوشش کی مگر پینتالیس سال سے پہلے بند نہیں ہو سکتی، کیا میرا جی پی فنڈ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ آیا میں اپنا جی پی فنڈ نکلواکر استعمال کرسکتا ہوں ؟جبکہ مجھے معلوم بھی نہیں ہے کہ جی پی فنڈ میں اضافہ کس کاروبار میں لگانے کی وجہ سے ہوتا ہے، مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں ۔ 

جواب

جی پی فنڈ کی دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔

1۔اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا ملازم کے اختیار میں ہو اور ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کروائے ،اور کمپنی یا ادارے کی طرف سے اضافہ دیا جائے ، تو اس اختیاری جی پی فنڈ کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم حلال ہے، اصل رقم کے علاوہ کمپنی  اپنی طرف سے جو رقم شامل کررہی ہے اس کا لینا بھی جائز ہے۔ لیکن اصل اور کمپنی کی طرف سے شامل کردہ رقم کو کمپنی یا ادارہ کسی انشورنس کمپنی یا بینک میں جمع کرے  اور اس پر اضافہ ملے، تو اس  اضافی رقم کا حکم یہ ہے کہ  چوں کہ یہ جی پی فنڈ اختیاری ہے، اس صورت میں کمپنی یا ادارہ ملازم کے لیے وکیل بن جائے گا،  اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوتاہے، لہٰذا بیمہ کمپنی یا بینک میں رقم منتقل ہونے کے بعد ملازم اس رقم کا مالک بن جائے گا، اب اس رقم پر جو اضافہ کے ملے گا وہ شرعاً سود ہی ہے، اس کا استعمال ملازم کے لیے ناجائز ہے۔

2۔اوراگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا آدمی کے اختیار میں نہ ہو اور کمپنی یا ادارہ جی پی فنڈ کی مد میں پیسے کاٹے اور اصل پیسے کے بجائے دوگنے پیسے دے یا اس سے زیادہ دے تو یہ اصل رقم اور اس پر دیا جانے والا اضافہ  حلال ہے اور اس پر اضافہ سود کے زمرے میں نہیں آتا،  اس لیےکہ اس میں ملازم کا عمل دخل نہیں ہے،اور یہ ملازم کے لیے عطیہ کی طرح ہے، اس کا لینا ملازم کے لیے جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  اگر سرکاری ملازم کے لیے جی پی فنڈ کی کٹوتی لازمی نہیں ہے اور مذکورہ جی پی فنڈ سائل کی اپنی  مرضی اور اختیار سے کاٹا جارہا ہے  تو  سائل کے لیے اپنی اصل رقم  اور ادارے کی طرف سے اضافہ کردہ رقم وصول کرنا تو جائز ہے ،لیکن اس  کو کسی ادارے میں رکھوا کر اس میں جو اضافہ کیا جاتا ہے اس اضافی رقم کو لینا جائز نہیں ہے ۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

 (البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام"

(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".

 (رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة".

(كتاب البيوع ،ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’جبری  پراویڈنٹ فنڈ  پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت (تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال  میں لانا جائز ہے ،البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے  اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے‘‘۔ 

(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ: 3/258، ط: دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں