بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فضائل اعمال میں ذکرکردہ احادیث کا حکم


سوال

تبلیغی جماعت میں فضائل اعمال سے تعلیم کی جاتی ہے، یا ہماری مساجد میں فضائل اعمال سے تعلیم کی جاتی ہے ، اس کے بارے میں پوچھنا یہ تھا کہ اس میں جو احادیث ذکر کی گئی ہیں کیا وہ ضعیف احادیث میں سے لی گئی ہیں ؟ اور اگر کسی صاحب کا یہ گمان ہو کہ اس میں ضعیف احادیث ہیں اور وہ جماعت میں بھی وقت لگائے تو کیا حکم ہے اس شخص کے بارے میں؟ کیوں کہ جماعت میں تو فضائل اعمال ہی پڑھی جاتی ہے ؟

جواب

مصنفِ فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ گذشتہ صدی میں حدیث مبارک کی بے پناہ خدمات سر انجام دینے والی نمایاں شخصیات میں سے تھے، انہیں حدیث اور اصول حدیث پر کماحقہ مہارت اور بصیرت حاصل تھی، چنانچہ انہوں نے حدیث کی جتنی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں انہوں نے حدیث کے اصولوں کو ہی مد نظر رکھا ہے، حدیث مبارک کی ان تصنیفی اور تدریسی خدمات کو عرب و عجم کے علماء و مشائخ نے نہ صرف سراہا ہے، بلکہ ان کو "شیخ الحدیث" کا لقب بھی دیاگیاہے، اس لیے برصغیر پاک و ہند میں جب صرف "شیخ الحدیث" کہا جاتا ہے، تو اس لقب سے حضرت والا ہی کی ذات مراد ہوتی ہے۔
ان کی حدیث مبارک پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے "فضائل اعمال" کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس کتاب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں دینی اور اصلاحی تبدیلی آئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کی علامات میں سے ہے۔
دوسری جانب کسی حدیث کی کتاب میں ضعیف حدیث کا بیان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، اسی طرح "فضائل اعمال" کتاب میں بھی بہت سی صحیح احادیث اور حسن احادیث موجود ہیں، اور بعض اعمال کے فضائل اور وعیدوں سے متعلق بعض جگہوں پر ضعیف احادیث بھی ذکر کی گئی ہیں۔
"ضعیف" کا معنی ہے کمزور، عام طور پر جب یہ کہا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، تو لوگوں کو اس لفظ سے دھوکہ ہو جاتا ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث کمزور ہے، نا قابل اعتبار ہے، حالاں کہ ضعیف احادیث بھی محدثین کے نزدیک معتبر ہوتی ہیں، تاہم ان کا مرتبہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کم تر ہوتا ہے،لہذا "حدیثِ ضعیف" کی تعریف سمجھنے سے پہلے "حدیث حسن" کی تعریف سمجھنا ضروری ہے۔
"حدیث حسن" وہ حدیث ہے، جس کی سند میں درمیان سے کوئی راوی نہ چھوٹا ہو، بلکہ وہ حدیث واسطہ در واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو، اور اس کے تمام راوی ثقہ، معتبر، معتمد اور عادل ہوں، مگر اُن میں سے ایک یا متعدد راویوں کی حفظ و یادداشت میں کچھ کمی ہو، اور اس حدیث کا کوئی راوی حدیث بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ قوی و معتمد راوی کی مخالفت بھی نہ کرتا ہو، اور نہ ہی اس حدیث میں کوئی ایسا مخفی عیب ہو، جس سے اس حدیث کی صحت پر اثر پڑ رہا ہو۔
حدیث ضعیف کی تعریف:
لغوی اعتبار سے "ضعیف" بمعنی کمزور ہے۔
اصطلاحی مفہوم میں"ضعیف" وہ حدیث ہے، جس میں حدیثِ حسن کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں،جمہور علماء کے نزدیک ضعیف حدیث پر تین شرائط کے بعد عمل ہوسکتا ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف اس درجہ کا نہ ہو کہ موضوع (من گھڑت) کی حد تک پہنچ جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی دوسری صحیح حدیث یا اصول دین سے متصادم نہ ہو،تیسری شرط یہ ہے کہ جو عمل اس حدیث سے ہم مستنبط کر رہے ہیں، یعنی کہ جس پر وہ ضعیف حدیث دلالت کر رہی ہے، اس عمل کو سنت نہ کہا جائے۔
آخر میں فضائل اعمال کے حوالے سے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللّٰہ کی اپنی وضاحت خود آپ کے رسالہ "کتب فضائل اور ان کے جوابات" سے ملاحظہ فرمائیں:
"فضائل کی روایات کے متعلق اصلاً یہ ذہن میں رہے کہ فضائل میں معمولی ضعف قابل اغتفار ہے، ( یعنی قابل معاف ہے ) اس لیے جن روایات کو ذکر کیا گیا ہے، ان میں اس اصول کی رعایت کی گئی ہے اور جن روایات پر کسی نے کلام کیا ہے، اس کو ظاہر کر کے ضعیف کی دلیل بھی ظاہر کر دی گئی ہے،اس چیز کا تعلق چونکہ عوام سے نہیں تھا، بلکہ اہل علم سے تھا، اس لیے اس کو عربی میں لکھا گیا کہ عوام کے عقول  سے یہ چیزیں بالاتر تھیں۔(بحوالہ:کتب فضائل پر اشکالات کے جوابات: ص:39،ط:کتب خانہ اشاعت العلوم سہارنپور)

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جہاں کہیں بھی فضائل اعمال کی تعلیم کی جاتی ہےاس میں شرکت کرنے یا ان فضائل پر عمل کرنے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کرنا چاہیے،اور نہ ہی جماعت میں وقت لگانے والے شخص کےبارے میں کوئی اعتراض کرنا چاہیے۔

امام نووی ؒ شارحِ مسلم لکھتے ہیں :

"الرابع أنھم قد یروون عنھم أحادیث الترغیب والترھیب وفضائل الأعمال والقصص وأحادیث الزھد ومکارم الأخلاق ونحو ذٰلک لا یتعلق بالحلال والحرام وسائر الأحکام ، وھٰذا الضرب من الحدیث یجوز عند أھل الحدیث وغیر ھم التساهل فیه."

                              (شرح مسلم نووی ،مقدمات،باب بیان ان الاسناد،125/1،ط:داراحیاء التراث ) 

فتح القدير میں ہے:

"فالضعيف غير الموضوع ‌يعمل ‌به في فضائل الأعمال."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،349/1،ط:دارالفکر)

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"الحسن من الحديث: أن يكون راويه مشهورا بالصدق والأمانة، غير أنه لم يبلغ درجة الحديث الصحيح؛ لكونه قاصرا في الحفظ والوثوق، وهو مع ذلك يرتفع عن حال من دونه."

(باب الحاء،ص:87،ط:دارالکتب العلمیہ)

و فیه ایضا:

"الضعيف من الحديث: ما كان أدنى مرتبة من الحسن، وضعفه يكون تارة؛ لضعف بعض الرواة، من عدم العدالة، أو سوء الحفظ، أو تهمة في العقيدة، وتارة بعلل أخر، مثل الإرسال والانقطاع والتدليس."

(باب الضاد،ص:138،دارالکتب العلمیۃ)

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"قال العلماء: يجوز العمل بالحديث الضعيف بشروط، منها:
أ - أن لا يكون شديد الضعف، فإذا كان شديد الضعف ككون الراوي كذابا، أو فاحش الغلط، فلا يجوز العمل به.
ب - أن لا يتعلق بصفات الله تعالى ولا بأمر من أمور العقيدة، ولا بحكم من أحكام الشريعة من الحلال والحرام ونحوها.
ج - أن يندرج تحت أصل عام من أصول الشريعة.
د - أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته، بل يعتقد الاحتياط."

(حرف الفاء،الاحكام المتعلقۃ بالفضائل،160/32،ط:دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں