بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبہ میں درود پڑھنے کاحکم


سوال

جمعہ کے خطبہ کے دوران جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام یا صحابہ کرام کا نام آئے تو درودشریف اور رضی اللہ عنہ کہنا چاہیے یا خاموش رہنا چاہئے ۔نیز اکثر سننے میں آیا ہے کہ جب (ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی) والی آیت سنو تو درودشریف پڑھنا ضروری ہے ۔

 

جواب

خطبہ  جمعہ کے دوران جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آجائے تو دل دل میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام پر درود پڑھے،زبان سے نہ پڑھے، کیونکہ خطبہ کے دوران ہر قسم کا کلام ممنوع ہے چاہے وہ ذکر ہی کیوں نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ولا كلام) أي: من جنس كلام الناس، أما التسبيح ونحوه فلا يكره، وهو الأصح، كما في النهاية والعناية. وذكر الزيلعي: أن الأحوط الإنصات، ومحل الخلاف قبل الشروع، أما بعده فالكلام مكروه تحريما بأقسامه كما في البدائع بحر ونهر، وقال البقالي في مختصره: وإذا شرع في الدعاء لا يجوز للقوم رفع اليدين، ولا تأمين باللسان جهرا، فإن فعلوا ذلك أثموا، وقيل: أساءوا ولا إثم عليهم، والصحيح هو الأول، وعليه الفتوى، وكذلك إذا ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يجوز أن يصلوا عليه بالجهر بل بالقلب وعليه الفتوى رملي".

( كتاب الصلاة، باب الجمعة ،2/ 158، ط: سعيد)

فتاوی دار العلوم  دیوبند میں ہے :

" خطبہ میں جہا ں آپ ﷺ کا نام آوے  خطیب درود شریف پڑھے  اور سامعین دل دل میں درود شریف پڑھیں  حکم شرعی یہ ہے "۔

( کتاب الصلوۃ ، 5/63،دار الاشعات )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں