بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فنجا کے ذریعہ رقم کی ادائیگی کا حکم


سوال

حضرات مفتيان كرام كيا فرماتے ہیں فنجا کے بارے میں،  مثلا ہم کسی کمپنی سے سامان لیتے ہیں تو فنجا اس سامان کی رقم ہماری طرف سے بطور ادھار ادا کرتی ہے، مدت معینہ تک کے لیے ، اورپھرفنجا ہم سے اس ادھار کی رقم پر مہینے پر 3%اور 15دن پر 2%اور 7دن پر 1%کے حساب سے اضافی رقم لیتے ہیں، کیا ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں" فنجا " کا خریدار کی طرف سے ادھار کے طور پر  سامان کی قیمت ادا کرنا اور پھر    قرض کی واپسی میں مقروض شخص سےمشروط اضافی رقم وصول کرنا سود ہے؛  لہٰذا  "فنجا" کے ذریعے ادائیگی کرنا  ناجائز ہے، اس سے بچناضروری ہے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحًا أو أقرضه وشرط شرطًا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض".

(بدائع الصنائع: كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض 7/ 395، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الثانية: 1406هـ = 1986م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں