بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فنڈ کے ذریعہ جمع شدہ رقم کو دینی مصارف میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

۱-ہم تین چار ساتھی باختیار ماہانہ چار پانچ سو رقم جمع کرتے ہیں تعمیر معاشرہ کے نام سے، اس میں ہماری نیت یہ ہوتی ہے  کہ علمی کتب کی اشاعت کریں گے، ہمارے محلے وغیرہ میں کوئی فتنہ اٹھا  تو اس کے خلاف اپنے اکابر کی کتب وفتاوی وغیرہ خرید  کر اپنے ساتھوں کو مفت دیں گے، یعنی لوگوں کی صحیح ذہن سازی کریں گے، مدارس وغریب طلبہ کو کتابیں، قرآن وغیرہ خرید کر دیں گے، اسی طرح اہل حق کے دار الافتاء کی لائبریریوں میں جس کتاب کی ضرورت ہوگی،  ان سے پوچھ  کہ کتابیں  دیں گے وغیرہ وغیرہ، کیا یہ سب کام اس رقم سے درست  ہیں؟

۲- ایک دکان دار کہتا ہے کہ مجھے اس رقم سے کتابیں خرید کر دے دیں،میں فروخت کر کے نفع میں سےآدھا   نفع رکھ  لوں گا باقی آدھا نفع تعمیر معاشرہ میں ڈال دیا جاے، تو کیا یہ صورت درست ہے؟

۳- غریب افراد وغریب علماء کو نقد رقم اس  شعبہ  سے دینا کیسا ہے؟

۴- بعض دفعہ  ایسا بھی ہوتا ہےکہ اس فنڈ میں سے جس کتاب کی ہم اشاعت کرتے ہیں ان میں سے ایک ایک کتاب اپنی اس مہم کے شرکاء ساتھیوں  کو بطور ملک کے دے دیتے ہیں؛ تاکہ ہر ساتھی اس کتاب کے مضمون سے بھر پور مستفید ہو سکے، کیا اس طرح شرکاء کو کتاب کا مالک بنانا جائز ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں، فقہ حنفی کے مطابق مدلل راہ نمائی فرمائيں-

جواب

سوال میں  مذکورطریقے کے مطابق مال جمع کرنا ایک طرح ٹرسٹ  کی صورت ہے ، واضح رہے کہ ٹرسٹ کا فنڈ دینی کاموں   میں استعمال کرنا جائز اور ماجور ہے اور  جمع شدہ رقم نفلی صدقات میں شمار کی جا ئےگی، نفلی صدقہ کا حکم یہ ہےکہ وہ کسی بھی خیر کے کام میں خرچ کیا جاسکتا ہے، یہ صدقہ  مال دار کو بھی  دیا جاسکتا ہے، لہذا سوال میں تمام صورتوں کےاحکام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مذکورہ فنڈ سےدینی کتابوں  کا چھپوانا ،   کتابیں خرید کر غریب طلبہ کو  دینا     یا  دار الافتاؤں میں تقسیم کرنا جائز  اور خیر کا کام ہے۔

2۔ دوسری صورت چوں کہ شرعًا  مضاربت کے حکم میں آتی ہے، لہذا  اگر تمام شرکاء راضی ہوں تو مضاربت کی  شرائط کا لحاظ رکھتے  ہوئے یہ صورت بھی جائز  ہے،  اس کے علاوہ یہ صورت بھی جائز ہے کہ سائل اور اس کے ساتھی  یا مذکورہ دکان دار سائل  اور اس کے  ساتھیوں کی جانب  سے  مطلوبہ کتب خرید کر سائل اور اس کے ساتھیوں کو قبضہ دے دے، اس کے بعد ان سے نفع پر خرید لے۔

3۔  ٹرسٹ  کی  جمع  رقم  غریب افراد کو نقدکے طور پر دینا بھی جائز ہے۔

4۔ اس فنڈ  سے شائع ہونے والی کتابیں فنڈ جمع کرنے والے شرکاء کو دینا بھی درست ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:  

"و أما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، (2/ 47).

شامی میں ہے:

"لأن الصدقة على الغني هبة، كما أن الهبة للفقير صدقة".

(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين:(2355)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں