بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیول کارڈ کسی دوسرے کو فروخت کرنے کا حکم ، کارفائنانسنگ کے ذریعہ کمپنی کی طرف سے ملنے والی کار وصول کرنے کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں جاب ( نوکری ) کرتا ہوں ، کمپنی کی جانب سے مختلف سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ، جن میں سے دو سہولیات کے بارے میں شرعی راہ نمائی درکار ہے ۔

1- کمپنی مجھے ایک " فیول کارڈ " دیتی ہے ، جس کی بنیاد پر مجھے ماہانہ 250 لیٹر پیٹرول استعمال کرنے کی سہولت ملتی ہے، جب کہ پیٹرول کا کل خرچہ کمپنی ادا کرتی ہے ، اور اگر میں ماہانہ  ڈھائی سو  لیٹر مکمل استعمال نہ کرپاؤں تو پیٹرول کی بقایا مقدار اگلے مہینے کے ڈھائی سو لیٹر کے ساتھ مجھے مل جاتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ چوں کہ فیول کارڈ کی سہولت میں ملنے والی پیٹرول کی مقدار میری ضرورت سے زائد ہے، اور اس مخصوص کارڈ کے ذریعے ہی یہ پیٹرول وصول کیا جاسکتا ہے ، اس لیے میں اگر یہ فیول کارڈ کسی کو دے دوں اور اس کے استعمال کے عوض رقم وصول کروں ، یا بلاعوض کسی کو استعمال کرنے کےلیے دے  دوں تو کیا حکم ہے ؟ 

2- کمپنی مجھے کار کی سہولت بھی فراہم کررہی ہے ، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کمپنی اس سہولت کے دینے سے قبل میری تنخواہ میں اضافہ کرے گی اور اس اضافہ شدہ رقم کو تقریباً چار سال تک وصول کیا جائے گا ، جوکہ گاڑی کی قیمت کا ستر فیصد بنتا ہے ، اس کے علاوہ میری گزشتہ جاری شدہ تنخواہ میں سے تیس فیصد الگ سے کٹوتی ہوگی جو کہ چار سال تک ہوگی ۔

سوال یہ ہے کمپنی مذکورہ کار "میزان بینک " یا "فرسٹ حبیب پیراماؤنٹ  مضاربہ " کے ذریعہ حاصل کرکے دیتی ہے ، جس کے حصول میں کارفائنانسنگ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، کیا مذکورہ بالا طریقہ اور کارفائنانسنگ کے ذریعہ گاڑی لینا جائز ہے ؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں کمپنی کی جانب سے جو " فیول کارڈ " دیا جاتا ہے  اس کے استعمال میں اگر کمپنی کی جانب سے صارف کو مکمل اختیار دے دیا جاتاہے کہ وہ اسے جیسے مرضی خرچ کرے ، تو صارف کو  اختیار ہے چاہے فیول  کارڈکسی کو رقم کے عوض  دے ، یا بلاعوض کسی کو استعمال کے لیے دے دے ، اور اگرکمپنی کی جانب سے کسی قسم کا معاہدہ یا شرائط موجود نہ ہوں تو  اپنے ذاتی استعمال کے علاوہ اگر اس فیول کارڈ کو دوسرے شخص کے استعمال میں لانا چاہے، تو کمپنی سے صراحتاً اس بارے میں اجازت لے لے۔

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال." 

( الكتاب العاشر الشركات ، الباب الثالث ، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك ، المادة:1192 ، ج:3 ، ص:201 ، ط:دار الجيل )

در مختار میں ہے :

"‌لا ‌يجوز ‌التصرف ‌في ‌مال ‌غيره بلا إذنه."

( كتاب الغصب ، ص: 617 ، ط: دار الكتب العلمية)

2-  بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ   بینک کا قسطوں پر گاڑی دینے کے معاملہ میں دو قسم کی شرعی و فقہی  قباحتیں پائی جاتی ہیں :

1)  پہلی قباحت یہ ہے کہ  بنک سے قسطوں پر کار خریدنے والے اور بنک کے درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع(خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو بینک کی جانب سے مقرر ہ جرمانہ خریدار ادا کرنے کا پابند ہو گا، جو کہ شرعاً جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا باخذ مال في المذهب)... إذ لا يجوز لاحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال،4/61 ط:سعید)

2) دوسری قباحت یہ ہے کہ بینک سے قسطوں پر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:

" عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة."

(رواه الترمذي ،3/525 ،ط: مصطفی البابی الحلبی،مصر )

"و عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة."

(رواه في شرح السنة،5/1938،دارالفكر بيروت). 

لہذا مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی بنا پرسائل کے لیے کمپنی کی جانب سے ایسی گاڑی لینا جائز نہیں جو بینک سے قسطوں پر لی گئی ہو ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں