بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرشتوں کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا


سوال

1.ہماری مسجد کے امام صاحب نے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ علیہ السلام کہنے کے بجائے رضی اللہ عنہ کہا کیا یہ ٹھیک ہے؟

2. اور کیا یہ بات کہنا ٹھیک ہے جہاں ہمارا علم ختم ہوتا ہے وہاں سے اللہ کا علم شروع ہوتا ہے؟جب کہ کہنے والی کی مراد یہ تھی کہ اللہ ہم سے زیادہ جانتا ہے۔

جواب

1- انبیاءِ کرام اور فرشتوں کے لیےاصلاً دعائیہ کلمات "علیہ السلام"استعمال ہوتے ہیں (1)،  البتہ ضمناًدیگرحضرات کاتذکرہ ہوتوان کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثلاً: انبیاء  اورصحابہ کرام  کاتذکرہ ہو اورپھرسب کے لیے علیہم السلام کہاجائے تودرست ہے(2)۔ اور "رضی اللہ عنہ "یہ جملہ "ترضی" عرف اور اصطلاح کے اعتبار سے صحابہ کرام کے لیے مختص ہے، تاہم اگر کسی شخص نے فرشتوں کے نام کے ساتھ  "رضی اللہ عنہ"  کہہ دیا تو شرعاً اس سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا۔(3)

2.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں علم کے جتنے ذرائع عطا فرمائے ہیں وہ سب ذرائع محدود ہیں ، انسانی حواس ہوں یا انسانی عقل ،دونوں کا دائرہ کار محدود ہے، بہت سارے معاملات میں انسانی عقل اور حواس کامل ادراک سے قاصر رہتے ہیں، بطور خاص ایسے مواقع پر وحی الہی اور پیغبرانہ تعلیمات انسان کی راہ نمائی کرتی ہیں، نیز انسانی علم بہرحال عطائی ہے، یعنی اسباب وذرائع سے ، مشاہدات وتجربات سے ، حسی یا معنوی طورپر انسان کو حاصل ہوتاہے جب کہ باری تعالیٰ کا علم "علم ذاتی "ہے اور غیرمحدود ہے۔ اس کو ہمارے ہاں مختلف الفاظ سے تعبیر کیاجاتاہے، مثلاً:"جہاں عقل کا دائرہ کار ختم ہوتا ہے وہاں سے وحی الہی کا آغاز ہوتاہے"، یا "جہاں ہمارے علم کی انتہا  ہوتی ہے وہاں سے وحی کی ابتدا  ہوتی ہے" یا "جہاں حواس کا مشاہدہ اور عقل کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے غیب کے اسرار و رموز شروع ہوتے ہیں، وغیرہ"۔  اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمارا علم (معلومات) اللہ تعالیٰ کے علم میں نہیں ہے،  اسی طرح یہ بھی مراد نہیں ہوتا کہ ہمارا علم جہاں ختم ہوتاہے وہاں سے (باعتبار معنوی مکان) علمِ الٰہی  کی ابتدا ہوتی ہے، لہذا اگر کسی شخص نے علمِ الہی کی وسعت اور لامحدودیت کو بیان کرنے کے لیے یہ کہاکہ "جہاں ہمارا علم ختم ہوتا ہے وہاں سے اللہ کا علم شروع ہوتا ہے؟" اس سے کوئی حرج لازم نہیں آتا۔
(1 و 2)شرح فقہ اکبر میں ہے :

"وفي الخلاصة أیضاً: إن في الأجناس عن أبي حنیفة رحمه الله لایصلی علی غیر الأنبیاء والملائکة، ومن صلی علی غیرهم إلا علی وجه التبعیة فهو غال من الشیعة التي نسمیها الروافض". (ص:166 قدیمي کتب خانه کراچي)
(3)فتاوی شامی میں ہے :

( ولا يصلى على غير الأنبياء ولا غير الملائكة إلا بطريق التبع) وهل يجوز الترحم على النبي؟ قولان، زيلعي، قلت وفي الذخيرة: أنه يكره، وجوزه السيوطي تبعًا لا استقلالًا، فليكن التوفيق وبالله التوفيق. 
(ويستحب الترضي للصحابة) وكذا من اختلف في نبوته كذي القرنين ولقمان، وقيل: يقال: صلى الله على الأنبياء وعليه وسلم، كما في شرح المقدمة للقرماني، (الترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار، وكذا يجوز عكسه) الترحم للصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم (على الراجح) ذكره القرماني، وقال الزيلعي: الأولى أن يدعو للصحابة بالرتضي، وللتابعين بالرحمة، ولمن بعدهم بالمغفرة والتجاوز". (6/753.4دارالفکر بیروت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107201008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں