بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فری لانسنگ کا حکم


سوال

آج کل دوسرے ممالک سے کام حاصل کرنے کے لیے کچھ ویب سائٹس وغیرہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں، جس کے ذریعے سے کام حاصل کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر ایک بندہ  گرافک ڈیزائنر ہے وہ ان ویب سائٹس پر جا کر اپنے آپ کو رجسٹر کروا کر، اپنی پروفائل بنائے گا، پھر جب کسی کو گرافک ڈیزائنر کی تلاش ہوگی تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق ایک پوسٹ شیئر کرے گا، جس پر گرافک ڈیزائنر بولی لگائیں گے، جس کی بولی پارٹی کو سمجھ آتی ہے کام اس کو مل جاتا ہے، کام ملنے کے بعد وہ ویب سائٹ گرافک ڈیزائنر سے کچھ فی صد حاصل کرتا ہے۔

سوال (1): کیا اس طرح کا کام حاصل کرنا جائز ہے؟

سوال (2): ویب سائٹ کام کرنے والے سے جو فی صد حاصل کر رہی ہے وہ جائز ہے؟

سوال  (3): اس طرح کی ویب سائٹس غیر مسلم ممالک کی بھی ہیں، کیا ان ویب سائٹ کے ذریعے اپنے لیے کام حاصل کرنا درست ہے؟

سوال (4) : ایک بہت ہی مشہور ویب سائٹ ہے جس کے ذریعے پاکستان سے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں کام حاصل کر رہے ہیں، وہ اسرائیل کی ویب سائٹ ہے، کیا اس طرح کی ویب سائٹ سے کام حاصل کیا جا سکتا ہے ؟

1. www.fiverr.com (Israil)

2. www.freelancer.com (America)

جواب

۱۔ واضح رہے کہ فری لانسنگ  کے ذریعہ گرافک ڈیزائننگ کرکے مذکورہ طریقے پر پیسے کمانا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ اس میں جان دار کی تصاویر، موسیقی اور دیگر ناجائز امور شامل نہ ہوں۔ 

۲۔ اگر مذکورہ ویب سائٹس اپنا پلیٹ فارم مہیا کرکے فری لانسرز کو روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہیں اور فری لانسر کو کام ملنے پر اس سے فیصد کے اعتبار سے بروکری وصول کرتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔

۳۔ غیر مسلم ممالک کی ویب سائٹس پر جائز طریقے پر فری لانسنگ کے ذریعے پیسے کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔  مذکورہ اسرائیلی کمپنی کے ذریعہ کام کرنا بلا ضرورتِ شدیدہ ناجائز ہے۔

جواہر الفقہ میں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اس سے متعلق مختلف دلائل ذکر کرنے کے بعد خلاصۂ حکم یہ لکھا ہے کہ:

’’روایات حدیث و فقہ کے دیکھنے اور حالات موجودہ پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوا کہ اس وقت باوجود اباحت فی نفسہا کے مسلمانوں کے لیے اپنی دکانیں چھوڑ کر غیر مسلموں سے سامان خریدنا ہرگز جائز نہیں، باقی ضرورت شدیدہ مستثنیٰ ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔‘‘

(غیر مسلموں کے ساتھ معاملات، ج: ۵، ص: ۳۶۲، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی طبع جدید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولم نبع) في الزيلعي يحرم أن نبيع (منهم ما فيه تقويتهم على الحرب) كحديد وعبيد وخيل (ولا نحمله إليهم ولو بعد صلح) ؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن ذلك وأمر بالميرة وهي الطعام والقماش فجاز استحسانًا."

(کتاب الجہاد، ج: 4، ص: 134، ط: دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لا بأس بحمل الثياب والمتاع والطعام، ونحو ذلك إليهم؛ لانعدام معنى الإمداد، والإعانة، وعلى ذلك جرت العادة من تجار الأعصار، أنهم يدخلون دار الحرب للتجارة من غير ظهور الرد والإنكار عليهم، إلا أن الترك أفضل؛ لأنهم يستخفون بالمسلمين، ويدعونهم إلى ما هم عليه، فكان الكف والإمساك عن الدخول من باب صيانة النفس عن الهوان، والدين عن الزوال، فكان أولى."

(کتاب السیر، فصل في بيان ما يكره حمله إلى دار الحرب وما لا يكره، ج: 7، ص: 102، دار الکتب العلمیة)

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وفي «العيون» : لو استأجر رجلًا ينحت له أصنامًا أو يزخرف له بيتًا بتماثيل و الأصباغ من رب البيت فلا أجر؛ لأن فعله معصية، وكذلك لو استأجر نائحةً أو مغنيةً فلا أجر لها؛ لأن فعلها معصية."

(کتاب الإجارات، فصل خامس عشر، ج: 7، ص: 481، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں