بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت


سوال

کیا فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت ہے؟

جواب

 فرض نماز کے بعد دعا کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد دعا کا مقبول ہونا بھی مختلف احادیث میں وارد ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ ہرفرض نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے ،چاہے امام ہو ،یامقتدی ،یامنفرد، اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے ایک اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی، لہذا ہاتھ اٹھاکراجتماعی دعا کرنا ثابت ہے، اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں، نیزاسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا اور اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا، اور نہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا یہ بھی درست نہیں، لہذا مقتدی  دعا میں شریک ہونے اور اس کو مکمل کرنے کا پابند نہیں،  بلکہ اس کو اختیار ہے کہ چاہے تو فرض نماز کے بعد امام کے ساتھ دعا پوری کرے، چاہے تو امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا ختم کرے، اورچاہے تو امام کی دعا کے بعد بھی دعا مانگے، البتہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعد ہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود .... اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں، اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری" میں نقل كيا هے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

سسنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا محمد بن يحيى الثقفي المروزي قال: حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن عبد الرحمن بن سابط، عن أبي أمامة، قال: قيل يا رسول الله: ‌أي ‌الدعاء ‌أسمع؟ قال: «جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات."

(باب إجابة الدعاء، ج:5 ،ص:526، ط :البابی حلبی)

 "کنزالعمال" میں ہے:

"‌عن ‌أنس". "ما من عبد مؤمن يبسط كفيه في دبر كل صلاة، ثم يقول: اللهم إلهي وإله إبراهيم وإسحاق ويعقوب، وإله جبريل وميكائيل وإسرافيل أسألك: أن تستجيب دعوتي فإني مضطر وأن تعصمني في ديني فإني مبتلى، وتنالني برحمتك فإني مذنب، وتنفي عني الفقر فإني مسكين إلا كان حقا على الله أن لا يرد ‌يديه خائبتين."

(الكتاب الثاني الدعاء، الفرع الثاني أدعية بعد الصلوة، ج:2، ص:124 ،ط :مؤسسة الرسالة)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  ہے:

"( ثم يدعو لامام لنفسه وللمسلمين ) بالأدعية المأثورة الجامعة لقول أبي أمامة قيل يا رسول الله أي الدعاء أسمع قال " جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات ولقوله صلى الله عليه و سلم " والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ لا تدعن دبر كل صلاة أن تقول اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك " ( رافعي أيديهم ) حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه بخشوع وسكون،ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره اي:عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي  میں ہے:

"وليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعاء بعد الفريضة رافعين أيديهم على الهيأة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه الصلاة والسلام."

(باب ماجاء في كراهية أن يخص الإمام نفسه في الدعاء، ج:1، ص:346، ط:دار إحياء التراث العربى)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں