میں فرانس میں کرائے کےگھرمیں رہتا ہوں، میں ہر مہینے مالک مکان کو بارہ سو یورو(€1200) کرایہ دیتا ہوں، لیکن اگر بینک والے میرے لیے یہ گھر خرید لیں، اور پھر بینک مجھے اس گھر کی قیمت مقررکردیتاہےاور میں بینک کوہر مہینے کرائے کی جگہ قسط اداکروں توکچھ عرصے بعد جب قسطوں میں قیمت پوری ہوجائے گی توگھرمیراہوجائے گا، کیا یہ جائز ہے؟ یہ سود میں آتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مکان خریدنے کی صورت اگر یہ ہو کہ بینک مطلوبہ گھر اصل مالک سے پہلے خود خریدتا ہو، (یعنی بطورِ حیلہ سائل کو ہی اپنی طرف سے خریداری کا وکیل بناکر اسی کو فروخت نہ کرے) پھر بینک والے وہ گھر متعین قیمت کے ساتھ قسطوں پر کسٹمر کو فروخت کرتے ہوں، (اس طور پر کہ قسط کی تاخیر کی صورت میں مقررہ مجموعی رقم پر اضافی رقم بطورِ جرمانہ وصول نہ کرتے ہوں) تو اس طرح بینک سے گھر خریدنا جائز ہو گا۔
لیکن عام طور پر مغربی ممالک کا نظام غیر اسلامی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں بینک سے جو مکان خریدا جاتا ہے اُس میں سودی شرائط ملحوظ ہوتی ہیں، لہذا کوئی بھی معاملہ کرنے سے پہلے خؤب تحقیق کر لی جائے کہ سود کا معاملہ اور اس کا گناہ بہت سخت ہے۔
اعلاء السنن میں ہے:
"قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادةً أو هديةً، فأسلف علی ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".
(14/513، باب کل قرض جر منفعۃ، کتاب الحوالہ، ط؛ ادارۃ القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200613
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن