اگر ایک بیٹے کا نام" ایان" ہو اور وہ فوت ہو جائے تو کیا جب دوسرا بیٹا پیدا ہوتو اس کا وہی نام (فوت شدہ بیٹے کے نام پر) رکھ سکتے ہیں؟
کسی شخص کا نام اس کی شخصیت کی شناخت اور پہچان کے لیے ہوتاہے، اور دو یا دو سے زیادہ بیٹوں کا ایک جیسا نام رکھنااگرچہ درست ہے، لیکن چوں کہ ایک جیسا نام رکھنا لوگوں کے لیے شناخت میں الجھن کا باعث ہوتا ہے اس لیے یا تو بیٹوں کا الگ الگ نام رکھنا چاہیے یا ایک جیسا نام رکھا جائے لیکن اُن ناموں کے ساتھ کوئی ایسا اضافہ کیا جائے جس سےبآسانی اُن کی شناخت ہو جائے، جیساکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تین بیٹوں کا نام ایک جیسا یعنی ”محمد“ تھا، لیکن ان میں فرق کرنے کے لیے ایک کے نام کے ساتھ ”الاکبر“ کا اضافہ تھا دوسرے کے ساتھ ” الاوسط“ اور تیسرے کے ساتھ ”الاصغر“ کا اضافہ تھااور جب ایک بیٹا فوت ہو جائے تو دوسرے بیٹے کا بعینہ فوت شدہ کے نام پر نام رکھنا درست ہے کیوں کہ اس کے فوت ہوجانے کے بعد یہ الجھن کا باعث نہیں ہے، لیکن صورتِ مسئولہ میں ذکردہ نام ”اَیَان“ ”یاء“ کی تشدید کے بغیر عربی، اردو اور فارسی زبان میں ہمیں نہیں ملا، البتہ عربی زبان میں ”یاء“ کی تشدید کے ساتھ ”أیَّانَ“ اسم ظرف ہے، جس کے معنیٰ جب اور کب کے آتے ہیں، تو اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے بل کہ بچے کا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں پر یا اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کے ساتھ ”عبد“ کا اضافہ کرکے یا کوئی اور اچھے معنیٰ والا نام رکھ لیں۔
البدايۃ والنهایۃ میں ہے :
"ومنهن أسماء بنت عميس الخثعمية فولدت له يحيى ومحمدا الأصغر قاله الكلبي.وقال الواقدي: ولدت له يحيى وعونا قال الواقدي: فأما محمد الأصغر فمن أم ولد.....ومنهن أمامة بنت أبي العاص بن الربيع بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يحملها وهو في الصلاة إذا قام حملها وإذا سجد وضعها، فولدت له محمدا الأوسط، وأما ابنه محمد الأكبر فهو ابن الحنفية وهي خولة بنت جعفر بن قيس بن مسلمة بن عبيد بن ثعلبة بن يربوع بن ثعلبة بن الدؤل بن حنيفة بن لجيم بن صعب بن علي بن بكر بن وائل سباها خالد أيام الصديق أيام الردة من بني حنيفة فصارت لعلي بن أبي طالب فولدت له محمدا هذا".
(ذكر زوجاته وبنيه وبناته، ج : 7، ص : 367/68، ط : دار إحياء التراث العربي)
المعجم الوسيط میں ہے :
"(أيان) ظرف للزمن المستقبل نحو {أيان يبعثون} وتجيء للشرط نحو (أيان نؤمنك تأمن غيرنا وإذا … لم تدرك الأمن منا لم تزل حذرا)".
(باب الهمزة، ص : 35، ط : دار نشر اللغة العربية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101129
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن