تمام اسلامی ممالک میں فوج کا قانون برطانوی ہے، اس میں نوکری جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیسے جبکہ قانون برطانوی ہے؟
حضرت مفتی محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ ہندوستانی فوج میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"ظالموں سے ملک کی حفاظت کیلئے فوج میں ملازمت کرنا درست ہے، (آگے فرماتے ہیں۔۔۔)غلط کام کیلئے ملازمت کرنا اور لڑنا جائز نہیں، اس پر شہادت کی امید رکھنا بھی غلط ہے،شہادت تو کیا ملتی، بعض صورتوں میں ایمان کا سلامت رہنا بھی دشوار ہے۔"
(فتاویٰ محمودیہ، ج ۲۳، کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الصحیحۃ،ط: فاروقیہ)
اس سے ثابت ہوا کہ اسلامی ممالک کی افواج کے قیام کا اصل مقصد چونکہ مسلم ریاستوں کی حفاظت ہے، لہٰذا ان میں ملازمت جائز ہے، البتہ افواج میں اگر غیر مسلموں کے قوانین رائج ہوں، تو ان میں سے جو قوانین خلاف شرع ہوں ان پر عمل کرنا جائز نہ ہوگا، باقی قوانین اگرچہ غیروں کے بنائے ہوئے ہوں لیکن شریعت سے متصادم نہ ہوں تو ان کی وجہ سے ضرورۃً فوج میں ملازمت ناجائز نہ ہوگی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101201
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن