بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فوتگی کے موقع پر کھانا کھلانے کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم


سوال

ہمارے میں علاقے میں چھ خاندان رہتےہیں اور ہر خاندان کے افراد کی تعداد کم زیادہ ہے، چنانچہ جب کسی ایک خاندان میں انتقال ہوجائے تو بقیہ پانچ خاندان برابر چندہ جمع کرکے چھٹے خاندان کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور اس معمول کو لازمی سمجھتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ:   وفات کے وقت اس طرح چندہ  جمع کرکے  کھانا بنانا کیساہے؟

ایک خاندان کے افراد کم ہے اور دوسرے خاندان کے افراد زیادہ ہیں، مگر چندہ سب  برابر دیتے ہیں تو زیادہ خاندان والے افراد کا اس کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟

اس رسم کو لازمی سمجھاجاتاہے اور جو چندہ نہ دیں اس سے لوگ ناراض ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعا اس طرح کمیٹی بنانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ  فوتگی کے موقع پر   میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے  کا انتظام کریں۔

 اور اس وجہ سے بھی جائز نہیں ہے  کہ اس کمیٹی کے بنانے  کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ 

مزید یہ کہ اس رسم کو لازم سمجھاجاتاہے،اور جو چندہ نہ دے اس سے لوگ ناراض ہوتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے اس لیے اس قسم کی کمیٹی بنانا صحیح نہیں ہے۔

'مشکوۃ شریف' میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه رواہ البیهقي في شعب الإیمان والدارقطني في المجتبی."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

الدر مع الرد میں ہے:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم.

و في الرد : (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم، لقوله - صلي الله عليه وسلم- : اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاء هم ما یشغلهم. حسنه الترمذي وصححه الحاکم. ولأنه بِرٌّ ومعروف، ویلح علیهم في الأکل، لأن الحزن یمنعهم من ذلک فیضعفون اھ.

مطلب في کراهة الضیافة من أهل المیت وقال أیضاً: ویکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة. وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة اھ."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في الثواب علي المصيبة و مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت،  ج: 2، ص:240، ط: سعيد)

رد المحتار میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں