بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فوتگی کمیٹی


سوال

ہمارے پڑوس میں ہم نے ایک کمیٹی اس مقصد کے لیے بنائی ہے،  کہ ہمارے ہاں کسی کے گھر فوتگی   ہوتی ہے، تو رشتے دار  جن کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے خصوصا پہلے دن ان سب کے لئے کھانے کا بندوبست کسی ایک رشتہ دار پر بہت مشکل اور بھاری ہوتا ہے ، اور اکثر رشتے دار تو کراچی کے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں ، اور بغیر کھانے کے ان کو واپس بھیجنا خصوصا جب کھانے کا وقت ہو چکا ہو،  بلکہ  گزر چکا ہو،  اور آخرت  تک تجہیز و تکفین میں لگے ہوتے ہیں ، بہت زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے ، خصوصا ہم پٹھانوں میں، اس لیے صرف پڑوسی رشتہ دار مل کر ایک کمیٹی بناتے ہیں،  کہ ہر گھر ہر ماہ تین سو روپے ایک  خزانچی کے پاس جمع کرائے گا ، اور یہ رقم بھی خیراتی فنڈ ہوگی، اسی طرح اگر کسی کے گھر میں فوتگی کی ہوتی ہے تو پھر یہ پڑوسی رشتہ دار کمیٹی والے،  گزار ِحال پانی والا سالن بنوا کر اور روٹیاں منگوا کر،  صرف دور سے آنے والے مہمانوں اور میت کے گھر والوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اس میں جمع شدہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے، کیا شرعا  یہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن کے لیے کھانے کا انتظام کریں، میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا توجس شخص پر اس کا خرچہ واجب ہے، وہ یہ اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں، مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں؛

میت کمیٹی کی شرعی حیثیت

فتاوی شامی میں ہے:

"( وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم. و في الرد: (قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی."

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: 2،ص: 206، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم."

( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:۲ ،ص:۲۴۰ ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں