بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوت شدہ نمازوں کی قضا کیسے کریں؟


سوال

زید کی عمر پچیس سال ہے، اس نے ماضی میں نمازیں پابندی کے ساتھ ادا نہیں کیں، اب وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا  کرنا چاہتا ہے ، تو کس طرح کرسکتا ہے؟ بلوغت کی عمر کیا ہوگی؟  کیوں کہ بلوغت کی عمر صحیح یاد نہیں۔ قضا  نمازیں پوری ہوجانے کے بعد وہ دوبارہ صاحبِ ترتیب بنے گا یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ بلوغت کا مدار علامتِ بلوغت پر ہے، اگر کسی لڑکے میں بلوغت کی علامت (مثلًا احتلام ہونا یا بیوی کو حاملہ کرنا) پائی جائے تو وہ بالغ سمجھا جائے گا، خواہ اس کی عمر پندرہ سال سے کم ہو، اور اگر بلوغت کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو قمری اعتبار سے پندرہ سال عمر پوری ہوتے ہی لڑکا بالغ سمجھا جائے گا، بلوغت کی کم سے کم عمر بارہ سال ہے، اس سے کم عمر میں بلوغت کی علامت معتبر نہیں ہیں۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں خوب غور کرلیا جائے، پس جس عمر میں بالغ ہونے کا غالب گمان ہو اس کا اعتبار کر کے نمازوں کا حساب کیا جائے، اور علامت کے پائے جانے کا اندازہ لگانا مشکل ہو تو جب قمری اعتبار سے زید  کی عمر پندرہ سال ہوئی تھی اس وقت سے قضا نمازوں کا حساب کرکے قضا نمازیں پڑھنا شروع کی جائیں۔

قضا نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک زید  کی کتنی نمازیں فوت ہوگئیں ہیں  اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو  ان تمام نمازوں کو قضا کرے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو   تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کسی رجسٹر/کاپی وغیرہ میں  لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں اور جونماز قضا پڑھ لی جائےرجسٹر میں اس کو منہاکرتے رہیں۔  جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر( واجب) کی ہوتی ہے۔

قضا  نماز یں اگر متعین ہیں تو ان کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا  پڑھی جا رہی ہے اس کی  تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں ، مثلًا پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں ، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا  نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلًا   جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلًا جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی ،اور ایک سے زائد  بھی   پڑھ سکتے ہیں تاکہ جلد بری الذمہ ہوجائیں، نفل کو موقوف  کرسکتے ہیں۔

باقی اگر کوئی شخص اپنی تمام قضا  نمازوں کو لوٹا لے تو وہ دوبارہ صاحبِ ترتیب شمار ہو گا اور اُس کے اوپر صاحبِ ترتیب والے احکام لاگو ہوں گے۔

 فتاوی شامی میں ہے :

"(الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء فرض عملي ) بمعنى ما يفوت الجواز بفوته قد مر مرارًا يعني أن الكل إن كان فائتًا لا بد من رعاية الترتيب بين الفروض الخمسة ، وكذا بينها وبين الوتر ، وكذا إن كان البعض فائتًا و البعض وقتيًّا لا بد من رعاية الترتيب فيقضي الفائتة قبل الوقتية."

(ج2،ص:65،کتاب الصلاۃ،ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا، ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت. وقيل لا يلزمه التعيين أيضا كما في صوم أيام من رمضان واحد، ومشى عليه المصنف في مسائل شتى آخر الكتاب تبعا للكنز وصححه القهستاني عن المنية، لكن استشكله في الأشباه و قال: إنه مخالف لما ذكره أصحابنا كقاضي خان وغيره و الأصح الاشتراط. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت ج2ص 76 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں