بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوت شدہ نمازیں اگر چھ یا اس سے زیادہ ہوں تو ترتیب ساقط ہوجاتی ہے


سوال

اگر کسی بندے کے ذمہ بہت ساری نمازوں کی قضاء ہو اور وہ اُن کو ترتیب سے ادا نہیں کرے بلکہ جو ذہن میں آئےاس طرح ادا کرلے تو کیا وہ ذمہ سے ساقط ہوں گی؟ مثلًا اگر کسی نے تین دن کی نمازیں چھوڑی ہوں اور چوتھے دن وہ اُن نمازوں کی اس طرح قضاء کرےکہ سب سے پہلے وہ پہلے دن کی قضاء نمازیں پڑھے، پھر دوسرے دن کی قضاء نمازیں پڑھےاور پھر تیسرے دن کی قضاءنمازیں پڑھے تو کیا اس طریقے سے یہ نمازیں ہوجائیں گی ؟

جواب

اگر کسی شخص سے چھ  یا اس سے زیادہ نمازیں قضاء ہوجائے تو اُن کی ادائیگی میں ترتیب لازمی نہیں ہوتی، بغیر ترتیب کے بھی پڑھ سکتے ہیں، البتہ جس دن کی فوت شدہ نماز کی قضاء کرنی ہو تو اُس دن اور نماز کی تعیین ضروری ہے کہ مثلًا میں یہ پہلے دن کی فجر کی فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھ رہا ہوں یا یہ  کہ میں دوسرے دن کی فجر کی فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھ رہاہوں،لہٰذا اگر کسی شخص سے تین دن کی نمازیں فوت ہوئی ہیں اور وہ چوتھے دن اُن کی اس طرح قضاء کرے کہ   دن کی تعیین کے ساتھ نماز کی بھی تعیین کرے کہ مثلًایہ کہ  میں پہلے دن کی فجر یا ظہر کی فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھ رہاہوں یا دوسرے دن کی فجر یا ظہر کی فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھ رہاہوں تو اس طریقے سے قضاء نمازیں پڑھنا درست ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستا بخروج وقت الصلاة السادسة وعن محمد - رحمه الله تعالى - أنه اعتبر دخول وقت السادسة، والأول هو الصحيح، كذا في الهداية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت، 123/1، ط: رشيدية)

وفیہ ایضًا:

"وكثرة الفوائت كما تسقط الترتيب في الأداء تسقط في القضاء حتى لو ترك صلاة شهر ثم قضى ثلاثين فجرا ثم ثلاثين ظهرا ثم هكذا صح، هكذا في محيط السرخسي.

الترتيب إذا سقط بكثرة الفوائت ثم قضى بعض الفوائت وبقيت الفوائت أقل من ستة الأصح أنه لا يعود، هكذا في الخلاصة قال الشيخ الإمام الزاهد أبو حفص الكبير وعليه الفتوى، كذا في المحيط، حتى لو ترك صلاة شهر فقضاها إلا صلاة واحدة ثم صلى الوقتية وهو ذاكر لها جاز، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت، 123/1، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. قال ابن عابدین: (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، فروع في قضاء الفوائت، 76/2، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں