بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فارسیج کمپنی میں انویسٹمنٹ کیوں ناجائز ہے؟


سوال

 فورسیج ایک کمپنی ہے جو کہ پاکستان میں اس وقت کام کر رہی ہے،اس کی ورکنگ دو پلانز پر مشتمل ہے، پہلا پلان ورکنگ پلان ہے ،جس میں ورکنگ اکاؤنٹ 12 ڈالرز سے ایکٹو ہوتا ہے ،جو پاکستانی 3700 روپے بنتے ہیں، کبھی یہ 100 یا 150 روپے سے کم بھی ہو جاتا ہے، کیونکہ ڈالر کی قیمت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے ،اور اس اکاؤنٹ میں آپ کو ٹیم بنانی ہوتی ہے، جس میں ہر ایک شخص یا ممبر کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے پر آپ کو 5 یا 10 ڈالرز ملتے ہیں، یہی نہیں بلکہ آپ کا ممبر جب ٹیم آگے بنائے گا تو وہاں سے بھی ہر ممبر سے آپ کو 5 ڈالرز ملیں گے ،اس طرح آپ کی ٹیم جتنی بڑی ہوتی جائے گی، آپ کی ارننگ اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور انویسٹمنٹ بھی پہلے شخص سے پوری ہو جائے گی، دوسرا پلان اس کمپنی کا نان ورکنگ پلان ہے، جس میں آپ کو کوئی کام نہیں کرنا ہوگا ،اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن سے ٹیم نہیں بنتی ہے، اور وہ اپنی انویسٹمنٹ کر کے نان ورکنگ پلان ایکٹو کر لیتے ہیں، اور اس پلان سے روزانہ کے 50 یا 60 ڈالرز ملتے ہیں، اور اس کے لئے ورکنگ اور نان ورکنگ دونوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 100 سے 200 ڈالرز تک کمایا جا سکتا ہے۔ یہ اس کمپنی کا سسٹم ہے کہ یہ ایسے کام کرتی ہے۔

یہ بتا دیں کہ اس کمپنی میں  انویسمنٹ کرنا اور کام کرنا  جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اس پر تفصیلی فتوی درکار ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے کمپنی کے کام کے متعلق جو دو طریقے ذکر کیے ہیں ،ان دونوں میں مشترکہ طور پر شرعاً متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں،جن کی وجہ سے اس کمپنی میں انوسٹمنٹ کرنا ناجائز ہے،اور اس کی کمائی حلال نہیں  ہے۔

1:ایک تو اس میں قمار (جوا) پایا جاتاہے،یعنی کمپنی کا ممبر بننے کے لیے جو رقم دی جاتی ہے وہ اس موہوم امید پر دی جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں کہیں زیادہ رقم حاصل ہوگی،اس طرح اس میں تعلیق التملیک علی الخطر کا پہلو ہے (یعنی اس بات کا خطرہ ہے کہ یا تو اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھوئے گا یا ان پیسوں سےزیادہ پیسے آئیں گے)۔

2:اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ ابتداً جو انویسٹ کی جارہی ہے یہ کمپنی کا ممبر اور کمیشن ایجنٹ بننے کے لیے دی جارہی ہےتو یہ رشوت بنتی ہے،کیونکہ یہ دلالی کے عقد پر اجرت  دی جارہی ہے۔

3:کمپنی کا مقصد کوئی حقیقی کاروبار کرنا نہیں،کیونکہ کمپنی کے پاس  یا تو سرے سےکوئی ٹھوس اثاثہ جات نہیں ہوتے،اور اگر ہوتے ہیں تو برائے نام ہوتے ہیں جن سے مقصد تجارت نہیں ہوتا،بلکہ ممبر در ممبر  سازی کے ذریعے  کمیشن کا حصول اور ٹیم بڑھانا مقصد ہوتاہےجو کہ حقیقتاً  کوئی کاروبار نہیں ہے،

 لہذا مذکورہ وجوہات کی بنا پر مذکورہ کمپنی  میں انویسٹ کرنا اور نفع کماناجائز نہیں ہے۔

 سنن أبی داود  میں ہے:

’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي‘‘.

(کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة،3/ 300، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر".

: (تعليقًا) ش: أي تعليق التمليك : (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

 ( کتاب البیوع ،باب بیع الفاسد، ۸/۱۵۸، ط:  دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں