بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فورسیج / forsage آن لائن حلال ہے یا حرام؟


سوال

فورسیج آ ن لائن ورک/ٹریڈینگ حلال ہے یا حرام؟ اس میں اپنا نیٹ ورک بنانا پڑتا ہے۔

جواب

 فورسیج کمپنی سے متعلق جو معلومات فورسیج کمپنی کی ویب سائٹ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں اس کے مطابق فورسیج کمپنی میں سرمایہ کاری درج ذیل وجوہات کی بناء پر جائز نہیں :

1: اس کا طریقہ کار ملٹی لیول مارکیٹینگ کا ہے۔یعنی  فورسیج نیٹ ورک پر لوگوں کو منسلک کروانے پر فورسیج کی طرف سے ریوارڈ (کمیشن)  ملتا ہے۔ اور جس کو منسلک کروایا ہے جب وہ آگے کسی کو منسلک کرواتا ہے تو اس کے ساتھ پہلے والے ممبر کو بھی ریوارڈ (کمیشن)  ملتا ہے۔ اس میں پہلا کمیشن تو ٹھیک ہے، لیکن پھر یہ کمیشن در کمیشن شروع ہوجاتا ہے جو کہ محنت کے بغیر، عمل کے بغیر اجرت کی صورت اختیار کرجاتا ہے، اور ملٹی لیول مارکیٹینگ کا طریقہ شرعاً جائز نہیں۔

2: مذکورہ کمپنی کا بنیادی مقصد تجارت نہیں، ممبر سازی ہے، اور شرعاً ممبر سازی کی حیثیت کاروبار کی نہیں بلکہ اس کا طریقہ کار جوئے کی شکل ہے۔

3: ابتداء میں سرمایہ کاری کے نام سے جو رقم لی جاتی هے، چوں کہ یہ معاملہ شرعی اصولوں کے مطابق نہ شرکت ہے، نہ مضاربت وغیرہ۔ لہٰذا کمپنی میں رجسٹرڈ ہونے کے لیے ابتداء میں جو رقم لی جاتی ہے وہ بھی جائز نہیں۔

4: مذکورہ کمپنی کرپٹو کرنسی کے ذریعہ کام کرتی ہے، اور  کرپٹو کرنسی یا اس جیسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیاں، محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں۔

کرپٹو کرنسی اور اس طرح کی جتنی ڈیجیٹل کرنسیاں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے اس طرح کے نام نہاد کاروبار میں سرمايه كاری جائز نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن وائل بن داود، عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيُّ الكسب أطيب؟ قال: "عمل الرجل بيده، وكلّ بيعٍ مبرورٍ".

ترجمہ:’’آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع‘‘۔

(شعب الايمان، ج:2، ص:434، رقم الحديث:1171، ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن میں ہے:

"وعن رافع بن خديج، قال: قيل: يا رسول الله! أي الكسب أطيب؟ قال: ((عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور)) رواه أحمد".

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

(‌‌كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج:7، ص:2112، رقم الحدیث:2781، ط:مكتبة نزار مصطفى الباز - مكة المكرمة - الرياض)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .

وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، ‌مطلب ‌في ‌أجرة ‌الدلال، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

و فیہ أیضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(کتاب الحظر و الاباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:403، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں