بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فورسیج کمپنی میں کام کا حکم


سوال

فورسیج کمپنی میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

 واضح رہے کہ(forsage) فورسیج آن لائن کمپنی كا جو طریقہ کار ہے اس میں شرعًا دو خرابیا ں پائی جاتی ہیں ایک تو اس میں جوا پایا جاتا ہے کہ کمپنی  جوائن کرنے کے لیے کچھ رقم جمع کرنی پڑتی ہے،  کمپنی جوائن کرنے کے  بعدممبر کو پیسے  تب  ملتے ہیں  جب وہ  کسی اور کو ممبر بنائےگا ورنہ ممبر کو  پیسے نہیں ملیں گے،جب کہ شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ  کمپنی  کے ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درست نہیں،  دوسری خرابی یہ  ہےکہ حقیقت میں اس کمپنی کا کوئی کاروبار نہیں ہے، بلکہ ممبر سازی کے ذریعے  کمیشن در کمیشن کاروبار چلانا  اصل مقصد ہے جو  کہ جوئے کی ایک شکل ہے،  اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے جوئے میں پیسے لگاکر  یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے کچھ نہ ملے اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے بہت سارے پیسے مل جائیں، اسی  طرح مذکورہ کمپنی سے منسلک ہونے کے بعد کام کرنے میں یہ امکان بھی ہے کہ ممبر کو کچھ نہ ملے (انفرادی طور پر مطلوبہ افراد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے) اور یہ امکان بھی ہے کہ ممبر  کو کچھ ملے ؛    لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ وجوہات کی بنا پر مذکورہ کمپنی جوائن کرکے کام کرنا اور نفع کماناجائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:403،سعید)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر".

شرح

م: (تعليقًا) ش: أي تعليق التمليك م: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:8،ص:158،دارالکتب العلمیۃ)

الموسو عۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم".

(ج:39،ص:404،طبع الوزارۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں