ہمارے علاقہ میں نادرا آفس ہے اور شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ایک 16 گریڈ افسر کے سائن کی ضرورت ہوتی ہے اور قریب میں ایک ہائی سکول موجود ہے، لوگ وہاں سے سائن کرواتے ہیں اور سکول والے ایک سائن کے بدلے 100 روپے لیتے ہیں، کیا ان کایہ 100روپے لینا ازروئے شریعت جائز ہے یا نہیں ؟
صورت ِ مسئولہ میں اسکول والے اگر فارم کی تصدیق کرنے پر پیسے وصول کرتے ہیں تو اس کا حکم سفارش کا ہے؛اس لیے کہ متعلقہ ادارہ سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق نادرا فارم کی تصدیق سے متعلق فارم پر یہ الفاظ درج ہیں:
"میں تصدیق کرتا /کرتی ہوں کہ درخواست دہندہ پاکستانی شہری ہے ،اس کو میں ذاتی طور پر جانتا ؟/جانتی ہوں اور جو کوائف اس فارم میں درج ہیں ،میرے علم کے مطابق درست ہے۔ "
تصدیق در حقیقت فارم قبول کرنے کی سفارش ہے کہ درخواست دہندہ کے جملہ کوائف بھی درست ہیں اور یہ خود پاکستانی شہری ہے ؛ لہذا اس بات کی میں سفارش کرتا ہوں کہ اس کے فارم کو آگے کارروائی کے لیے قبول کیا جائے اور چوں کہ سفارش پر پیسے لینا شرعاً جائز نہیں ؛ لہذا صورت ِ مسئولہ میں اسکول والوں کے لیے فارم کی تصدیق کرنے پر پیسے لینا شرعًا جائز نہیں ہے ۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس؛ لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر ولو اشترى ثمرة شجرة ثم استأجر الشجرة لتبقية ذلك فيه لم يجز؛ لأنه لا يقصد من الشجر هذا النوع من المنفعة وهو تبقية الثمر عليها فلم تكن منفعة مقصودة عادة."
(کتاب الاجارۃ،فصل فی انواع شرئط رکن الاجارۃ،ج:4،ص:192،دارالکتب العلمیۃ)
امداد الفتاوی میں ہے :
"وجہ منع صرف اجرت علی الطاعۃ میں منحصر نہیں ،یہ بھی احد الوجوہ ہے ،دوسری وجہ منع کی اس عمل کا غیر متقوم عند الشرع ہونا ہی جیسا کہ فقہاء نے اجارہ اشجار لتجفیف الثیاب کو منع کہا ہے ،پس شفاعت بھی شرعاً غیر متقوم ہے ۔
لأنه لم ينقل تقومه، وتقوم المنافع بغير القياس فما لم ينقل لا يجوز القول بتقومه، وأيضا فلا تعب في الشفاعة، ولا يعطون الأجر عليها من حيث أنه عمل فيه مشقة، بل من أنها مؤثرة بالوجاهة، والوجاهة وصف غير متقوم، فجعلوا أخذ الأجرة عليها رشوة وسحتا. والله أعلم."
(کتاب الاجارۃ،اجرت بر شفاعت،ج:3،ص:341،مکتبۃ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100846
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن