بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس ٹریڈنگ کا شرعی حکم


سوال

آن لائن فاریکس ٹریڈنگ جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ؟

جواب

اس وقت فاریکس ٹریڈنگ کے  جتنے طریقے رائج ہیں وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے  کی وجہ سے ناجائز  اور حرام ہیں۔

ذیل میں وہ بنیادی وجوہات ذکر کی جارہی ہیں کہ جن کی بنا پر فاریکس ٹریڈنگ کا کاروبار کرنا ناجائز ہے:

(1)  شرعی ضابطہ یہ  ہے کہ جب کوئی ایسی چیز خریدی جائے جس کا حقیقی وجود  ہو تو ایسی صورت میں فروختگی کے وقت جہاں مبیع کا معلوم اور متعین ہونا ضروری ہے ،وہیں  خریدار  کا آگے فروخت کرنے سے پہلے اس مبیع پر باقاعدہ قبضہ کر کے اسے اپنے ضمان اور تحویل میں لینااور اگر خریدی جانے والی  چیز مشاع (مشترک غیر منقسم) ہو تو اس میں باقاعدہ  حصص کی علیحدگی اور تعیین کرکے مبیع پر قبضہ  کرناضروری ہے ، لیکن  چوں کہ اکثر طور پر لوگ فاریکس میں خریداری صرف کرنسی ریٹ کے اتار چڑھاؤ  کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کے لئے کرتےہیں، ان کا مقصد  کرنسی  کا حصول نہیں ہوتا ،اسی وجہ سے  اکثر خریدارکرنسی پرقبضہ کیے بغیرآگے فروخت کردیتے ہیں،اسی لیے  فاریکس ٹریڈنگ بیع قبل القبض کی قباحت سے بھی خالی نہیں  اور بیع قبل القبض (یعنی کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے بیچنانیز  اس سے حاصل شدہ منافع کا استعمال) ناجائز ہے۔ 

البتہ غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت جو بینکوں کے ذریعہ  ہوتی ہے وہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(الف)پہلی شرط یہ ہے کہ جو شخص کرنسی فروخت کرے اس کے اکاؤنٹ میں کرنسی موجود بھی ہو،جتنی کرنسی اکاؤنٹ میں موجود ہوگی اس حد تک کرنسی فروخت کرنا جائز ہوگا۔

(ب)دوسری شرط یہ ہے کہ  جب کرنسی دے کر کرنسی خریدی جاۓ تو    اگر ایک ہی ملک کی کرنسی کا اسی ملک کی کرنسی  ( مثلاً پاکستانی روپے کے بدلے میں پاکستانی روپے) کے عوض معاملہ کیا جائے تو  سودا نقد  اور برابری کے ساتھ کیاجائے ،یعنی نہ ادھار جائز ہوگا اور نہ ہی کمی بیشی، ورنہ بیع فاسد ہوجاۓ گی،البتہ اگر دونوں جانب کی کرنسی آپس میں ایک ہی جنس کی نہ ہو،بلکہ مختلف ہو (مثلاً روپے کے بدلے ڈالر یا ریال وغیرہ کی خرید و فروخت کی  جاۓ) تو اس صورت میں کرنسی کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنا تو جائز ہوگا،  لیکن ادھار کر کے بیچنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ مجلسِ عقد میں دونوں طرف سے کرنسی پر قبضہ کرنا لازم ہوگا۔ لہذا ایسے تمام سودے ناجائز  ہوں گے جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے ،  یا نقد ہوتی ہے ، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حصے پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے  اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) طے شدہ اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس ٹریڈنگ"  کے کاروبار میں  شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps( بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حالا ں  کہ بیع تام ہو جانے کےبعد  لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ  اگر اس  سودےمیں نقصان ہو جاۓ تو  بروکر کو اسی طرح خود صارف کو     پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار  حاصل ہوتا ہے،جب کہ شرعاًاپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد بروکر کا سودے میں کوئی اختیار باقی  نہیں رہتا ، اسی طرح خریدار کو  بھی یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سودے کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر ختم کرسکے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع ونقصان اسی کے ذمہ ہے ،صرف نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔

الغرض  فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ   کیا جانے والاکاروبار بہت سے مفاسد پر مشتمل  ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز ہے  اور اس میں سرمایہ  کاری شرعا جائز نہیں ہے، اس لئے مسلمانوں پر اس سے احتراز لازم ہے، ہاں اگر ان مفاسد اور خرابیوں سے اجتناب کرکے شرعی احکامات کے مطابق مذکورہ کاروبار   کیا جاۓ تو پھر یہ کاروبار بلاشبہ جائز ہوگا۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."(المائده:90)

مسندِ احمد میں ہے:

"عن طاوس، قال: سمعت ابن عباس، قال: " أما الذي نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن يباع حتى يقبض فالطعام " وقال ابن عباس برأيه: " ولا ‌أحسب ‌كل ‌شيء إلا مثله."

(‌‌ومن مسند بني هاشم،‌‌مسند عبد الله بن العباس بن عبد المطلب عن النبي صلى الله عليه وسلم،404/3،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم التسليم يكون بالتخلية على وجه يتمكن من القبض بلا مانع ولا حائل. وشرط في الأجناس شرطا ثالثا وهو أن يقول: خليت بينك وبين المبيع فلو لم يقله أو كان بعيدا لم يصر قابضا والناس عنه غافلون، فإنهم يشترون قرية ويقرون بالتسليم والقبض، وهو لا يصح به القبض على الصحيح."

(كتاب البيوع،561،62،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وشرط ‌المعقود ‌عليه ‌ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم."

(كتاب البيوع،505/4،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وحاصله أن التخلية قبض حكما لو مع القدرة عليه بلا كلفة... قوله(بلا مانع) بأن يكون مفرزا غير مشغول بحق غيره."

(كتاب البيوع،مطلب فى شروط التخلية،562/4،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(لا) يصح اتفاقا ككتابة وإجارة و (‌بيع ‌منقول) قبل قبضه ولو من بائعه."

(كتاب البيوع،‌‌باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل القبض والزيادة والحط فيهما وتأجيل الديون ،147/5،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(هو) لغةً: الزيادة.وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(كتاب البيوع، باب الصرف، 257/5،ط:سعيد)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ولأن ‌هذا ‌العقد ‌مبادلة الثمن بالثمن، والثمن يثبت بالعقد دينا في الذمة، والدين بالدين حرام في الشرع لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الكالئ بالكالئ فما يحصل به التعيين، وهو القبض لا بد منه في هذا العقد، وكان ينبغي أن يشترط مقرونا بالعقد؛ لأن حالة المجلس تقام مقام حالة العقد شرعا للتيسير."

(كتاب البيوع،كتاب الصرف، ج:14،ص:3، دارالمعرفة)

درر الحکام میں ہے:

"ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه.

يعني أن إعطاء الحرام وأخذه سواء في الحرمة، كما أن المكروه أخذه وإعطاؤه مكروه."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،المادة :34 ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه،43/1،دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں