بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس ٹریڈنگ کی حرمت کے بعض اسباب


سوال

فوریکس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟کچھ علماء جائز بتاتے ہیں،کچھ حرام۔بات یہ ہے کہ جیسے اس زمانے میں جیسے بہت کام ڈیجیٹل ہوگئے ہیں ،ایسے ہی کرنسی کا خریدنا اور بیچنا بھی ہوگیا ہے،سارے کام بروکر کرتےہیں اور اس کی فیس چارجز کے طور پر لیتے ہیں ؟

جواب

فوریکس کے جائز اور ناجائز ہونے میں تفصیل  ہوسکتی ہے ،لیکن ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،   باقی سائل اپنے کام کا  طریقہ کار   ارسال  کردے؛تاکہ شرعی حکم بتایا جا سکے،جب کہ عمومی طور پر آن لائن کرنسی کی تجارت میں پائی جانے والی خرابیاں درج ذیل ہیں جن  کی وجہ سے ایسے معاملات ناجائز  ہو جاتے ہیں:

1۔قبضہ :کرنسی کی خرید و فروخت اور عام تجارت میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ کرنسی کی خرید وفروخت میں دونوں کرنسیوں پر مجلسِ عقد(یعنی سودے کے وقت ) میں ہی قبضہ کرنا ضروری ہے ،اگر  مجلس میں کسی ایک کرنسی پر بھی قبضہ نہیں پایا گیا تو عقد فاسد ہوجائے گا۔

2۔عام طور پر آن لائن معاملات میں ناجائز ہونے کی ایک وجہ  بیع قبل القبض ہے ،یعنی بیچنے والے کے پاس حقیقۃ وہ چیز ہی  نہیں ہوتی جس کا وہ سودا کرتا ہے،محض اعداد و شمار یا ٹوکن منی یا  کرنسی ریٹ کےاتارچڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کیا جاتا ہے، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں،اس طرح یہ معاملہ ناجائز ہو جاتا ہے۔

3۔اسی طرح بروکر  کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بھی شرعی قوانین کی رعایت ضروری ہے ،مثلاً بروکر کی اجرت متعین ہونی چاہیے ،مجہول  اور مبہم اجرت کی وجہ سے معاملہ ناجائز ہوجائے گا،جو کرنسی خریدی یا بیچی جارہی ہے اس رقم کے علاوہ علیحدہ سے بروکر کی اجرت متعین ہو ،اسی رقم سے دینا طے نہ ہو ۔

فاریکس ٹریڈنگ کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

فاریکس ٹریڈنگ پر کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  من ابتاع طعاما، فلا يبعه حتى يستوفيه قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(‌‌كتاب البيوع،‌‌باب بطلان بيع المبيع قبل القبض،ج:5،ص:7،:1525،ط:دار الطباعة العامرة)

رد المحتار میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء."

(کتاب البیوع،باب الصرف،ج:5،ص:259،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."

(كتاب الإجارة،شروط الإجارة،ج:6،ص:5،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں