بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس ٹریڈنگ کا حکم


سوال

فاریکس ٹریڈنگ کرنا حلال ہے یا حرام؟ 

جواب

فاریکس ٹریڈنگ کے تحت کئی قسم کے کاروبار ہوتے ہیں ،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

۱۔کیری ٹریڈنگ( Carry trade):

اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک کم شرح سود والی کرنسی ادھار پر لے کر اس کے بدلے زیادہ شرح سود والی کرنسی  خریدلی جائے,اس طریقہ کاروبار میں خریدار کا نفع  وہ فرق ہے جو دونوں کرنسیوں کے درمیان پایا جاتاہے, یہ طریقہ بینک اوردیگر مالیاتی اداروں کے طریقہ کاروبار کے مشابہ ہے کہ وہ کم شرح سود پرقرضے لیتے ہیں اورزیادہ شرح پر لوگوں کو فراہم کرتےہیں اور دونوں کے درمیان کا فرق ان کا نفع ہوتا ہے۔

 اس کاروبار میں شرکاء تین قسم کے ہوتے ہیں۔

۱۔مختلف بینک:  اکثر بڑے سودے  بینک کرتے ہیں ,کرنسی کے اتار چڑھاؤ میں ان کے سودوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

 ۲۔مختلف ادارے  جو لوگوں کی رقوم سے  سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں۔

۳- انفرادی خریدار جو اپنی ضرورت کے لیے کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں۔

فاریکس کے بارے میں مذکورہ تفصیلات درج ذیل مواضع سے حاصل کی گئی ہیں۔

۱-https://en.wikipedia.org/wiki/Foreign_exchange_market

2-http://www.forex.com/uk/forex-video-tutorials.html

3-http://www.learntotradethemarket.com/forex-university/introduction-what-is-forex-trading

۲۔فاریکس کموڈٹی ٹریڈنگ  (FOREX COMMODITY TRADING):

انٹرنیٹ پر کاروبار  کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تیل ، مختلف دھاتیں جیسے کاپر، لوہا وغیرہ  اور مختلف اجناس  جیسے گندم ، چاول وغیرہ  بھی اسی فورم پر خریدی اور بیچی جاتی ہیں, اس میں بھی عموماً وہی اصول اور ضوابط ہوتے  ہیں جو فاریکس کرنسی ایکسچینج میں ہوتے ہیں ۔ ایک صارف  اپنے تھوڑے سے  سرمایہ سے بڑی لاٹ خرید سکتا ہے مثلاً کوئی شخص  دس  ہزار روپے سے اپنا اکاؤنٹ کھولتا ہے  اور ایک لاکھ روپے کا خام تیل یا گندم کی لاٹ خرید لیتا ہے اور بطورِ بیعانہ  محض دس ہزار روپے اد اکردیتا ہے۔ یہ تمام خریداری بروکر یا ڈیلر کے ذریعے سے ہوتی ہے۔  اس  کاروبارمیں بھی اسپاٹ ٹریڈنگ(Spot trade ) اورفیوچر ٹریڈنگ (Future Trade)دونوں ہوتی ہیں۔(www.dalianexchange.com)

لاٹ خریدنے کے بعداگر  مبیع کی قیمت بڑھ رہی ہو تو  صارف کا نفع ہوتا ہے اور مقررہ مدت آنے سے قبل بسا اوقات وہ اس لاٹ کو فروخت کردیتا ہے اور اگر  مبیع کی قیمت گرنے لگے  تو یہ صارف کا نقصان   ہوتا ہے , اگر  نقصان  صارف کی جمع کرائی ہوئی رقم سے تجاوز کرنے لگے تو  بروکر  صار ف کو کہتا ہے  یا تو آپ مزید رقم جمع کرائیں  یا میں   آپ کا سودا  کینسل کردیاجاتا ہے۔اگرخریدارمزید رقم جمع نہ کرائے تو  بروکر پورا سودا کینسل کردیتا ہے ،  یعنی  یہ کہ اسکرین پر جو سودا صارف کی ملکیت دکھایا جاتا ہے حقیقت  میں اس   کے خلاف ہوتا ہے، اور صار ف کی ملکیت صرف  صارف کی جمع کرائی ہوئی  رقم تک محدود ہوتی ہے۔

فقہی حکم:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے  یا نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔

الحاصل تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے باطل  ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) مسلم (طے شدہ) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps( بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) فیوچر سیل کی جو صورت اوپر بیان ہوئی وہ بیع ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے ،مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔

(5) اس  طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فیصد لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتارچڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض "، "بیع مضاف الی المستقبل"  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائے جاتے ہیں جن کا اوپر بیان ہوا ۔نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے   اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے اگر اس میں نقصان ہو جائَے تو  بروکر کو  اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہےجب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اوراختیار نہیں ہوتا اوراگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع ونقصان اس کے ذمہ ہے ،نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض. قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله."

(مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب المنهی عنها من البیوع، ج: ۲،ص: ۸۶۳، ط: المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو منع کیا ہے وہ غلہ ہے کہ اس کو قبٖے میں لانے سے پلے فروخت کرنا ممنوع ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میرا گمان ہے کہ اس بارے میں ہر چیز غلہ کی مانند ہے ۔"

وفيه أيضاّ:

"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد» . "

(مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الربا، ج: ۲، ص: ۸۵۵، ط: المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سونا ، سونے کے بدلے اور چاندی ، چاندی کے بدلے اور گیہوں ، گیہوں کے بدلے اور جو، جو کے بدلے اور نمک ، نمک کے بدلے اگر لیا دیا جائے تو ان کا لین دین (مقدار) میں مثل بمثل یعنی برابر سرابر و دست بدست ہونا چاہیے ، اگر یہ قسمیں مختلف ہوں (مثلا گیہوں کا تبادلہ جو  کے ساتھ یا جو کا تبادلہ کھجور کے ساتھ ہو) تو پھر اجازت ہے کہ جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو (یعنی برابر سرابر ہونا ضروری نہیں) البتہ لین دین کا دست بدست ہونا(اس صورت میں بھی) ضروری ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والمعنى أنه إذا بيع شيء منها ليس من جنسه، لكن يشاركه في العلة كبيع الحنطة بالشعير، فيجوز التفاضل فيه، وهذا معنى قوله: (فبيعوا كيف شئتم) : لكن بشرط وجود الشرطين الآخرين من الشروط المتقدمة لقوله: (" إذا كان ") ، أي: البيع (يدا بيد) ، أي: حالا مقبوضا في المجلس قبل افتراق أحدهما عن الآخر."

(کتاب البیوع، باب الربا، ج: ۵، ص: ۱۹۱۷، ط: دارالفکر)

مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے :

"(ولو) كان البيع (‌بشرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج: ۲، ص: ۶۲، ط: داراحیاء التراث العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."

(کتاب البیوع، الباب الثالث عشر فی الاقالة، ج: ۳، ص: ۱۵۷، ط: دارالفکر)

وفيه أيضاّ:

"ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح."

(کتاب البیوع، ج: ۳، ص: ۳، ط: دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما لا تصح) ‌إضافته (‌إلى ‌المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال."

(کتاب البیوع، باب المتفرقات، ج: ۵، ص: ۲۵۶، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں