بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس ٹریڈنگ کا حکم


سوال

میرا سوال آن لائن فاریکس ٹریڈنگ کے حوالے سے ہے ، اس کام میں انٹرنیٹ پر مختلف اشیاء کی خریدوفروخت کی جاتی ہے ، فاریکس ٹریڈنگ کرنے کے لیے بروکر(دلال) کے پاس آن لائن ڈالر اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے ، ڈالر اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے شہر میں موجودڈیجیٹل کرنسی ڈیلر سے پاکستانی کاغذی رقم کو ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل کروایا جاتا ہے ، کرنسی ڈیلر ڈیجیٹل کرنسی انٹرنیٹ پہ موجود ہمارے اکاؤنٹ میں منتقل کر دیتا ہے ،پھر اس ڈیجیٹل کرنسی سے اکاؤنٹ کھلوا کر ٹریدنگ کی جاتی ہے ،بروکر کے پاس ٹریڈنگ کے لیے جو اکاؤنٹ کھلوایا جاتا ہے ، بروکر اپنے پاس سے کچھ ڈالر ملا کر اکاؤنٹ کو بڑا کر دیتا ہے ،تاکہ ٹریڈنگ میں آسانی رہے ، اس کے عوض وہ ہر ٹریڈ پر 0.0017 منافع یا چارجز کے طور پر لیتا ہے ، بروکر جو رقم بڑھا کر اکاؤنٹ میں شامل کرتا ہے وہ قابل واپسی ہوتی ہے ۔ اس سے ہم صرف ٹریڈنگ اور منافع کما سکتے ہیں، لیکن وہ رقم ہماری نہیں ہوتی، اس رقم کو ٹریڈنگ کی زبان میں لیوریج کہتے ہیں، فاریکس ٹریڈنگ میں آئل (تیل)، سونا، چاندی، تانبا، لوہااور دوسری بہت ساری اشیاء  شامل ہیں، اس کے علاوہ کرنسی پیئرز پر بھی ٹریڈنگ کی جاتی ہے ۔کرنسی پیئرز والی ٹریڈنگ میں زیادہ چلنے والے کرنسی پیئرز ریٹ کم ہونے پر خریدے جاتے ہیں، اور ریٹ زیادہ ہونے پر بیچ دیے جاتے ہیں، اس طرح یہ عمل جاری رہتا ہے ، اس میں منافع بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی ہوتا ہے ،اس سارے عمل میں  کوئی بھی خریدی گئی چیز فزیکلی ہاتھ نہیں آتی، کرنسی پیئرز والی اور دوسری فاریکس ٹریڈنگ جس میں سونا چاندی اور آئل وغیرہ ٹریڈ کیے جاتے ہیں، ان سے حاصل ہونے والی آمدن حلال ہے یا حرام؟

جواب

فاریکس  ٹریڈنگ کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  ،وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،  وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے،  یا نقد ہوتی ہے،  مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2)   اصول ہے کہ بیع شرطِ  فاسد   سے  فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں  "فیوچر سیل " بھی  ہوتی ہے اور وہ  ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(5) اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد  لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کے اتار چڑہاؤ  کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

اسی طرح آپ نے جو صورت ذکر کی ہے اس میں مندرجہ بالا خرابیوں کے ساتھ ساتھ مزید یہ خرابی بھی  ہے کہ اس میں  ڈیجیٹل کرنسی  کے ذریعہ ٹریڈنگ کی جاتی ہے ،جو کہ محض ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں؛  لہذا  ڈیجیٹل کرنسی  کی خرید و فروخت کے نام سے  مارکیٹ میں  جو کاروبار چل رہا ہے وہ  حلال اور جائز  نہیں ہے، اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور  اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ  میں کچھ  حساب کتا ب کے  عدد آجاتے ہیں۔

دوسری خرابی یہ ہے کہ بروکر کے پاس اکاونٹ میں جو ڈالر رکھاجاتا ہے ،جس پر بروکر اپنی طرف سے  مزید رقم لگا کر ٹریڈ کرتا ہے ،جس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہے ،اور اس کے عوض وہ ہر ٹریڈ پر منافع لیتا ہے،اور قرض پر منافع  لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض" (قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل" (مستقبل کی بیع)  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا۔ نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے  اگر اس میں نقصان ہو جائے  تو  بروکر کو   اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع و نقصان اس کے ذمہ ہے، نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض. قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب المنهی عنها من البیوع،ج:2،ص:863،المکتب الاسلامی)

وفيه أيضاّ:

"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد» . "

(مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب الربا،ج:2،ص:855،المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والمعنى أنه إذا بيع شيء منها ليس من جنسه، لكن يشاركه في العلة كبيع الحنطة بالشعير، فيجوز التفاضل فيه، وهذا معنى قوله: (فبيعوا كيف شئتم) : لكن بشرط وجود الشرطين الآخرين من الشروط المتقدمة لقوله: (" إذا كان ") ، أي: البيع (يدا بيد) ، أي: حالا مقبوضا في المجلس قبل افتراق أحدهما عن الآخر."

(کتاب البیوع،باب الربا،ج:5،ص:1917،دارالفکر)

مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے :

"(ولو) كان البيع (‌بشرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:2،ص:62،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."

(کتاب البیوع،الباب الثالث عشر فی الاقالۃ،ج:3،ص:157،دارالفکر)

وفيه أيضاّ:

"ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح."

(کتاب البیوع،ج:3،ص:3،دارالفکر)

در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(وما لا تصح) ‌إضافته (‌إلى ‌المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال."

(کتاب البیوع،باب المتفرقات،ج:5،ص:256،سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)

فتاوی شامی   میں ہے:

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه ،وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني."

(باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض،ج:5 ،ص: 166، ط: سعید)

تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :

"بٹ کوائن"  محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں   " کوئن" یا   "ڈیجیٹل کرنسی"  کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے   " بٹ کوائن" یا کسی بھی   " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے."

(ج:2،ص:92،بیت العمار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں