بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس کمپنی میں کاروبار کرنے کا حکم


سوال

ایک کمپنی ہے، جس کا نام (meta fx global (forex tradig ہے۔  یہ کرنسی  ٹریڈنگ کا پلیٹ فارم ہے،  جس کے دو پلان ہیں۔

  1. سرمایہ داری (investing)
  2. نیٹ ورکنگ (networking)

1۔سرمایہ داری (investing) :  یہ کمپنی آپ سے پیسہ  لے کر  اس کو کرنسی ایکسچینج مختلف حلال اشیاء  مثلاً  crypto currencies , shares اور مختلف دھاتوں وغیرہ میں لگاتی ہے، آپ کا لیا ہوا پیسہ   agreementکے مطابق اپنے پاس رکھتی ہے، ایک طے شدہ مدت تک جو کہ 12 ماہ ہوتی ہے اور آپ کو 10 فیصد تک منافع دیتی ہے، جو کبھی کم اور کبھی زیادہ بھی دیتی  ہے  اور 12 ماہ پورے ہونے پر آپ کی رقم آپ کو واپس کردیتی ہے، لیکن اس مدت سے کم میں آپ اگر اپنا پیسہ نکالیں گے تو اپنی پالیسی کے مطابق کچھ رقم کاٹ کر بقیہ رقم آپ کو واپس کردیتی ہے۔

2۔نیٹ ورکنگ (networking) :  اس میں در اصل انویسٹنگ کی طرح کچھ رقم آپ کمپنی کو دیتے ہیں اور وہ ا س رقم پرآپ کو نفع دیتی ہے، اس میں اگر آپ اور لوگوں کو شامل کرتے ہیں تو  کمپنی والے آپ کو ان کی انویسٹنگ کا 5 فیصد کمیشن  دیتی ہے جو کہ  DIRECT BONUS کہلاتا ہے۔ اب  جتنے لوگ  آپ کے ذریعہ سے اس نظام میں داخل ہوتے ہیں اتنا ہی آپ کا درجہ بڑھتا ہے اور ایک مخصوص درجہ تک پہنچنے پر کمپنی آپ کو ماہانہ تنخواہ بھی دینے لگ جاتی ہے۔

شریعت کی روشنی میں  میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ فاریکس کمپنیاں کرنسی کی خرید و فروخت کا کام کرتی ہیں،  یہ کمپنیاں اپنے مؤکلین اور عالمی تجارتی مراکز میں موجود دلالوں کے درمیان کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں، اس کا طریقہ  بعض کمپنیوں کے یہاں یہ ہے کہ کمپنی میں دس ہزار ڈالر جمع کراکے آدمی اس کا رکن بن جاتا ہے، کمپنی والے اس آدمی کی راہ نمائی کرتے ہیں کہ کب اور کون سی کرنسی خریدے کہ جس کو بعد میں فروخت کرکے نفع کی امید کی جاسکے، یہ خرید دو طرح کی ہوتی ہے، ایک نقد جس کو spot/cash trading کہتے ہیں اور دوسری بیع سلم جس کو future trading کہتے ہیں۔ کرنسی خریدنے کے بعد رکن نے اگر اسی دن فروخت کردی تو یہ کمپنی اس سے صرف اپنا کمیشن وصول کرے گی، اور اگر فروخت کرنے میں تاخیر ہو تو سود وصول کرے گی۔

لہٰذا اس طرح کی کمپنیوں میں خواہ انویسٹنگ ہو یا ٹریڈنگ پیسہ لگانا اور کاروبار کرنا جائز نہیں، کیوں کہ اس میں سود کا معاملہ کرنے کی نوبت آتی ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کرنسی کی خرید و فروخت بیعِ صرف ہے، اس میں جانبین سے ہاتھ در ہاتھ پوری ادئیگی سودے کے وقت ہونی ضروری ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا اور ایک تیسری وجہ یہ ہے کہ کرنسی میں بیع سلم جائز نہیں، اسی طرح مذکورہ کمپنی معاہدے کی مدت پوری ہونے سے قبل اپنے رکن سے رقم نکالنے پر جو کٹوتی کرتی ہے تو وہ تعزیرِ مالی کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے اس طرح کٹوتی کرنا بھی جائز نہیں۔

جب مذکورہ طریقہ پر کاروبار کرنا درست نہیں تو اس کام کے لیے دلالی کرنا بھی جائز نہیں، اور اس پر جو کمیشن لیا جائے گا خواہ کسی بھی صورت میں ہو، وہ بھی حرام ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ

(البقرۃ: 278)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

عن عبادۃ بن الصامت قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید، فإذا اختلف ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بید، مسلم۔

(ص:244، کتاب البیوع، باب الربا، الفصل الاول، ط:قدیمی)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

ماحرم أخذہ حرم إعطائه، کما حرم الأخذ و الإعطاء فعلا حرم الأمر بالأخذ، إذ الحرام لایجوز فعله ولا الأمر بفعله ... ما حرم فعله حرم طلبه ... فکل شیئ لایجوز فعله، لایجوز طلب إیجادہ من الغیر، سواء کان بالقول أو بالفعل بأن یکون واسطة أو آلة لإیجادہ.

(ج:1، ص:77، المادۃ:34، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں