بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

forever living آن لائن کاروبار کے فتوے پر اعتراض


سوال

درج ذیل مسئلہ کے بارے میں تحقیقی امر واضح کردیا جائے ۔۔۔

144308100026 فتوی نمبر،  forever living آن لائن کاروبار کا حکم، درج بالا فتوی میں فارایور جو کہ نیٹورک مارکیٹنگ پر ہی مشتمل ہے ، میں شمولیت کی مشروط اجازت دی گئی ہے ، جیسا کہ فتوی میں مصرح ہے: "عوام الناس کے تعامل اور ان کی حاجات کی بناء پر بقدر ضرورت اس اجرت دلالی کی گنجائش دی ہے"۔ اور پھر دوسری طرف نیٹورک مارکیٹنگ کے بارے میں پوچھے گئے سوال میں اس کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔ فتوی نمبر : 144109200921۔

نیز جامعۃ الرشید جیسے آزاد خیال مدرسہ کے دارالافتاء نے بھی اس کو ناجائز قرار دیا ہے، وجوہات درج ذیل ہیں :  خلاصہ سوال:میں نے کچھ دن پہلے "فار ایور" نامی کمپنی میں کام شروع کیا ہے۔اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ کمپنی نے اپنی پراڈکٹس کو کچھ پوائنٹ دیے ہوئے ہیں جنہیں cc کہتے ہیں۔ کمپنی کو ایک بار 2cc کا ٹرن اوور کر کے دینا ہوتا ہے یعنی تقریباً 58000 روپے کی پراڈکٹس خریدنی ہوتی ہیں۔ میں نے یہ پیک خرید لیا ہے۔ اب اگر میں کسی اور کو کمپنی میں بزنس کرواؤں گی تو کمپنی مجھے پہلے لیول پر ایک بندے کا 20 فیصد کمیشن دے گی جو تقریباً 13000 بنتا ہے۔ یہ بندہ آگے لوگوں کو شامل کروائے گا۔ جتنے لوگ شامل ہوں گے ان سب کے cc میرے 2cc میں شامل ہوتے رہیں گے۔ جب میرے 25cc ہو جائیں گے تو میں دوسرے لیول پر پہنچ جاؤں گی۔ اس میں مجھے اس بندے کا 25 فیصد کمیشن ملے گا جسے میں شامل کرواؤں گی اور اگر میری ٹیم میں کوئی کسی کو شامل کرواتا ہے تو مجھے اس کا 5 فیصد کمیشن ملے گا۔ اسی طرح لیول بڑھتے جاتے ہیں اور آمدن بھی بڑھتی جاتی ہے۔ برائے مہربانی مجھے یہ بتا دیں کہ یہ کام حلال ہے یا حرام؟ کیوں کہ یہ پراڈکٹس فائدہ مند ہیں اور بہت سے لوگ صحت کے لیے خریدتے بھی ہیں۔ جواب: سوال میں مذکور کاروبار مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر جائز نہیں ہے: 1. لوگوں کو چیز فروخت کروا کر کمیشن لینا اجارے (ملازمت) کے تحت آتا ہے جسے پراڈکٹس کی خریداری کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ یوں ایک عقد (معاملے) میں دوسرا عقد جمع کیا گیا ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ 2. ان پراڈکٹس کی خریداری سے اکثر نیٹ ورکنگ کے کام میں شامل ہونا ہی مقصود ہوتا ہے جو اجارے کے تحت آتا ہے۔ معاملات میں شرعاً اس چیز کا اعتبار ہوتا ہے جو مقصود ہو ۔ چوں کہ اس ادائیگی کا مقصد اجارے (نیٹ ورکنگ) کا حق خریدنا ہوتا ہے جو کہ شرعاً حق مجرد کی بیع ہے لہذا یہ خریداری ناجائز ہے اور اس کے لیے پیسے ادا کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ 3. جو رقم کمپنی کو ادا کی جاتی ہے وہ اس امید پر ادا کی جاتی ہے کہ مزید ممبر بنانے پر کمپنی سے کمیشن ملے گا اور نفع ہوگا۔ چوں کہ ممبر بننا اور نفع ہونا یقینی نہیں ہوتا لہذا یہ شرعاً جوا بنتا ہے اور اس ذریعے سے ہونے والا نفع سود کے زمرے میں آتا ہے۔ 4. پہلے ممبر کے بعد آگے بننے والے ممبرز کی خریداری سے اس شخص کا براہ راست تعلق نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اسے جو کمیشن ملتا ہے وہ اس کے اپنے کام کے بغیر ملتا ہے۔ چوں کہ اجرت کسی کام کے بدلے ہوتی ہے لہذا یہاں اجرت لینا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ حوالہ جات: وإن اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع بعشرة فهو فاسد؛ لأنه بيع شرط فيه إجارة؛ فإنه إن كان بعض البدل بمقابلة الخياطة فهي إجارة مشروطة في بيع، وإن لم يكن بمقابلتها شيء من البدل فهي إعانة مشروطة في البيع، وذلك مفسد للعقد۔۔۔. (المبسوط للسرخسي، 15/102، ط: دار المعرفة) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض). (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر) محمد اویس پراچہ، دار الافتاء، جامعۃ الرشید، 14/ صفر المظفر 1443ھ 

درج بالا فتاوی کو مدنظر رکھ کر مندرجہ ذیل امور کے بارے میں وضاحت کردی جائے :۔ نیٹورک مارکیٹنگ ناجائز ہے تو فارایور جس کی بنیاد نیٹورک مارکیٹنگ ہے ، اس میں دلالی کی مشروط اجازت کیوں کر ہوگی ؟ جوا ، سود اور قمار، یہ تنیوں چیزیں اس نیٹورک مارکیٹنگ میں پائی جاتی ہیں ، جیسا کہ آپ کے دونوں فتاوی میں تصریح موجود یے ، اس کے باجود فارایور میں دلالی/بروکری جو کہ بلاواسطہ ہو اس کی گنجائش ہے ؟ فاراویور کے لیے کام کرنے والے بندے کی فقہی حیثیت دلال کی ہے تو ایسی دلالی جو کسی غیر شرعی معاملہ (جوا، ربا، سود ) کو متضمن ہو، شرعاً اس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ بینوا بالدلائل تؤجروا بالنوائل

جواب

واضح رہے کہ سوال میں جن فتاوی کا حوالہ دیا گیا ہے، ان میں کوئی تضاد نہیں ہے بل کہ ان سب میں الگ الگ نوعیتوں پر بحث کی گئی ہیں۔

چناں چہ جس ادارے نے عدم جواز کا فتوی دیا ہے، اس میں forever living کی خریداری و فروخت کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر عدم جواز کا حکم لگایا گیا ہے، کہ چوں کہ کمپنی کے لیے اشیاء فروخت کرکے اس پر کمیشن لینا اجارہ ہے، اور اس اجارہ میں شرط یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے کچھ خریداری کرنی ضروری ہے، جب کہ اجارہ میں شرط لگانا اجارے کو فاسد کردیتا ہے، لہذا مذکورہ شرط کی بنیاد پر یہ اجارہ فاسد ہوجائے گا۔ اس حیثیت پر جامعہ کے سابقہ فتوی میں نہ بحث کی گئی ہے نہ ہی اس پر سوال میں کچھ زیادہ تفصیل ہے، بل کہ اس فتوی میں کمپنی میں کام کرنے کی دوسری حیثیت پر بحث کی گئی ہے، اور وہ ہے دلالی(بروکری) کی صورت۔

چناں چہ  اس میں تفصیل وہی ہے جو جامعہ کے فتوی نمبر :144308100026میں مذکور ہے کہ اگر کمیشن بلاواسطہ ممبران کا ہے، تو اگرچہ وہ بھی اصولاً محنت کے عنصر سے خالی ہونے کی بناء پر ناجائز ہی ہونا چاہیے، مگر فقہاء کرام نے اس میں ضرورتاً گنجائش  دی ہے، ملاحظہ فرمائیں مندرجہ ذیل عبارتیں:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه".

(رد المحتار، کتاب الإجارۃ، 6/ 63، ط: سعید)

"و فی الأصل أجرۃ السمسار و المغازی و الحمامی و الصکاک و ما لا تقدیر فیه للوقت و لا مقدار لما یستحق بالعقد لکن فیه حاجة جاز و إن کان فی الأصل فاسدا".

(خلاصۃ الفتاوی، کتاب الإجارات، جنس آخر فی المتفرقات، 116/3، رشیدیه)

نیز اس بلاواسطہ ممبر سازی کے کمیشن میں ان محرمات میں سے کوئی نہیں پائی جاتی جو سوال میں مذکورہ ہیں، لہذا وہ جائز ہی ہوگا۔ تاہم اس کے بعد آنے والے  بالواسطہ ممبران کا کمیشن لینا ممبر اول کےلیے، سود اور جوا جیسی حرام چیزوں کی تعریف میں داخل ہوجاتی ہے، مزید برآں اس میں ممبر اول کا کسی بھی درجہ میں محنت نہیں۔ چناں چہ اس میں ممبر اول کو جو اجرت (کمیشن) ملتی ہےوہ قانوناً و اصولاً محنت سے خالی ہے، اور بٖغیر کسی عوض کے ہےجس کے سود ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لہذا یہ صورت حرام ہوگی۔

اور اسی بالواسطہ ممبران کے کمیشن والی صورت میں جوا و قمار کی موجودگی کو مدنظر رکھ کر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے، ملاحظہ ہو جامعہ کا فتوی نمبر : 144109200921:

"شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے جو کہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درت نہیں۔       لہذا نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو اس میں شامل کراکے کمیشن وصول کرنا، ناجائز ہے"۔

الغرض فارایور لیونگ(forever living) کمپنی کا یہ سلسلۂ کاروبار صرف ایک محدوود  حد تک تو بقدر ضرورت جائز ہے، یعنی بلا واسطہ(ڈائریکٹ) ممبران کی وجہ سے حاصل ہونے والی اجرت تو جائز ہے، لیکں چوں کہ اس مخصوص دائرہ جواز کے ساتھ ناجائز اور حرام کا ارتکاب بھی کرنا پڑتاہے(یعنی شروع میں کچھ خریداری کرنی پڑتی ہے) ، جس کی بناء پر حلال اور حرام کا اختلاط ہوتا ہے اور شریعت نے حلال و حرام کے اختلاط کی صورت میں حرام ہی کو ترجیح دے کر حرمت کا ہی حکم لگایا ہے، اس لیے مجموعی لحاظ سے اس کمپنی کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنے کو جائز نہیں کہا جاسکتا ہے۔

الاشباہ والنظائر لابن نجیم میں ہے:

"‌‌القاعدة الثانية: إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام وبمعناها: "‌‌ما اجتمع محرم ومبيح إلا غلب المحرم ".

(القاعدة الثانية، ص: 93، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

و ایضا:

"وصرح به في فتاوى قارئ الهداية ثم قال: ‌والعقد ‌إذا ‌فسد في بعضه فسد في جميعه".

(القاعدة الثانية، ص: 100، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں