بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فٹبال ٹورنامنٹ کے انعقاد کی چند صورتیں


سوال

 چند طلباء مل کر چھٹیوں میں بطور تفریح فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے غور کرنے کے بعد مندرجہ ذیل مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں ، ان صورتوں میں کون سی صورت جواز کے دائرے میں ہے  اور کونسی صورت عدم جواز کے دائرے میں ؟ بتاکر شکریہ کا موقع دیں۔

1۔ پچاس طلباء مل کر ایک مخصوص رقم مثلا دو دو ہزار روپیہ ہر ہر فردپر متعین کرکے جمع کریں  گے ،پھر اس کے بعد دس دس آدمیوں پر مشتمل پانچ ٹیمیں بنا ئیں گے، جمع شدہ رقم سے سب سے پہلے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا خرچہ نکالا جائے گا،بقیہ رقم جیتنے والی ٹیم کو انعام میں دی جائیگی۔

2۔ دوسری صورت پہلی صورت کی طرح ہی ہوگی، فرق صرف اتنا ہوگا کہ ہر ہرفرد پر متعین رقم لازم نہیں کی جائیگی، دینے نہ دینے دونوں کا اختیار ہوگا۔

3۔ تیسری صورت یہ ہوگی کہ پہلے پانچ ٹیمیں بنائیں  جائیں گی، پھر اسکے بعد ہر ٹیم پر متعینہ رقم مثلا تیس ہزار لازم کی جائے گی، پھر ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد جیتنے والی ٹیم کو بقیہ رقم انعام میں دی جائے گی۔

4۔تیسری صورت ہی ہے، فرق صرف اتنا ہوگا کہ ٹیم پر متعینہ رقم لازم نہیں ہوگی ،ہر ٹیم کو رقم جمع کرنے اور نہ کرنے دونوں کا اختیار ہوگا ۔

5۔ پانچویں صورت یہ ہوگی کہ صرف تین ٹیموں سے رقم وصول کی جائے گی ،باقی دو ٹیموں سے رقم بالکل وصول نہیں کی جائے گی ،البتہ رقم جمع کرانے والی تین ٹیموں کا انتخاب یا تو قرعہ اندازی سے ہ وگا یا پھر اتفاق رائے اور مشورے سے تین ٹیموں کا تعین کیا جائے گا، پھر اخراجات نکالنے کے بعد جیتنے والی ٹیم ( خواہ وہ جیتنے والی ٹیم رقم جمع نہ کرنے والی ہو ) کو بقیہ رقم انعام میں دی جائے گی۔

6۔ چھٹی صورت یہ ہوگی کہ کھیلنے والے صرف پچاس افراد ہوں گے، ان سے بھی پہلی صورت کی طرح متعینہ رقم لی جائے  گی ،البتہ کھیلنے والوں کے علاوہ کچھ تماشائی بھی اپنی طرف سے کچھ رقم جمع کریں گے، پھر جمع شدہ رقم کے خرچ کا طریقہ مذکورہ بالا صورتوں کے طرز پر ہی ہوگا ۔

یہ چندممکنہ صورتیں ہیں، ان صورتوں کا بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

 جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔  کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

  اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے میچ وغیرہ کھیلا جائے تو شرعاً   اس کی اجازت ہے۔ اس تفصیل کے بعد سوال میں ذکر کردہ صورتوں کا حکم یہ ہے :

1،3،6۔پہلی ،تیسری اور چھٹی صورتیں شرعا جائز نہیں ہیں  ؛ اس لیے کہ  یہ شرط رکھنا کہ  ہر فرد / ہر ٹیم  ایک مخصوص رقم جمع کرائے گا اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم  کو ملے گی، یہ شرعا  "قمار" یعنی جوا ہے ۔

2،4،5 ۔دوسری ،چوتھی اور پانچویں صورتیں شرعا جائز ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ...  وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي....

وفي الرد:...(قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".

(الدر المختار مع رد المحتار،‌‌كتاب الحظر والإباحة،  ‌‌فصل في البيع،402/6، سعید)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.

وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لا يجوز. "

(كتاب الكراهية والاستحسان، فصل فى المسابقة، ج:5، ص:323، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144406100585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں