بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فٹ بال میچ دیکھنے کا حکم


سوال

کیا فٹ بال میچ دیکھنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر بنانا شرعًا حرام ہے ، کبیرہ گناہ ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے ،  اسی  طرح  تصویر بینی اور تصویر سے کسی قسم کا بھی فائدہ اٹھانا شرعًا ناجائز   ہے؛  لہذا سوال میں اگر فٹ بال میچ دیکھنے سے مراد ٹی وی پر دیکھنا ہے تو  اس کا حکم یہ ہے کہ ٹی وی پر   میچ دیکھنا  شرعًا نا جائز ہے ۔نیز فٹ بال میچ کے دیکھنے میں تصویر کے گناہ کے ساتھ ساتھ عمومًا ایک اور قباحت بھی لازم آتی ہے اور وہ یہ کہ فٹ بال کے کھلاڑیوں  کا ستر عام طور  پر  مکمل مستور نہیں  ہوتا اور فٹ بال دیکھنے والا ستر کو دیکھنے کے گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔

اور اگر مراد براہِ  راست فٹ بال میچ دیکھنا یعنی فٹ بال گراؤنڈ میں جاکر  دیکھنا مراد ہے تو اس میں بھی ستر کو دیکھنے والی خرابی باقی رہے گی اور  ساتھ  ایک لغو کام میں اوقات کا ضیاع بھی لازم آئے گا؛  لہذا براہِ  راست  فٹ  بال گراؤنڈ  میں جا کر دیکھنے سے بھی  اجتناب کرنا چاہیے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: و لبس ثوب فيه تصاوير)؛ لأنه يشبه حامل الصنم فيكره. و في الخلاصة: و تكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل اهـ.

و هذه الكراهة تحريمية و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان، و أنه قال: قال أصحابنا و غيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم، و هو من الكبائر؛ لأنه متوعد عليه ... فينبغي أن يكون حرامًا لا مكروهًا إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(کتاب الصلاۃ باب ما یفسد الصلاۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۹،دار الکتاب الاسلامی)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"و أما اتخاذ المصور بحيوان، فإن كان معلقًا على حائط سواء كان له ظل أم لا، أو ثوبًا ملبوسًا أو عمامةً أو نحو ذلك، فهو حرام، و أما الوسادة و نحوها مما يمتهن فليس بحرام، و لكن هل يمنع دخول الملائكة فيه أم لا؟ فقد سبق."

(کتاب اللباس باب التصاویر ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۴۸،دار الفکر) 

وفيه ايضاّ:

"وعنها، أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب، فلم يدخل، فعرفت في وجهه الكراهية. قالت: فقلت: يا رسول الله أتوب إلى الله وإلى رسوله، فماذا أذنبت؟ فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بال هذه النمرقة؟ " قلت: اشتريتها لك لتقعد عليها، وتوسدها! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة، ويقال لهم: " أحيوا ما خلقتم ". وقال: " إن البيت الذي فيه الصورة لا تدخله الملائكة» ". متفق عليه"

فدل على أن التصوير حرام، وهو مشعر بأن استعمال الصور ممنوع ; لأنه سبب لذلك، وباعث عليه مع ما فيه من أنه زينة الدنيا."

(کتاب اللباس باب التصاویر ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۵۰،دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں