بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فٹ بال دیکھنے کا حکم


سوال

کیافٹبال دیکھنا جائز هے؟

جواب

 صورت مسئولہ  میں اگر فٹ بال میچ دیکھنے سے مراد ٹی وی پر دیکھنا ہے تو  اس کا حکم یہ ہے کہ ٹی وی پر   میچ دیکھنا  شرعًا نا جائز ہے ، کیوں کہ  فٹ بال میچ کے دیکھنے میں تصویر کے گناہ کے ساتھ ساتھ عمومًا ایک اور قباحت بھی لازم آتی ہے اور وہ یہ کہ فٹ بال کے کھلاڑیوں  کا ستر عام طور  پر  مکمل مستور نہیں  ہوتا اور فٹ بال دیکھنے والا ستر کو دیکھنے کے گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے،اور اگر مراد براہِ  راست فٹ بال میچ دیکھنا یعنی فٹ بال گراؤنڈ میں جاکر میچ   دیکھنا مراد ہے تو اس میں بھی ستر کو دیکھنے والی خرابی باقی رہے گی، اور  ٹی وی ،موبائل یا براہ راست ہر دو صورت   ایک لغو کام میں اوقات کا ضیاع بھی لازم آئے گا، لہذا  ٹی وی موبائل پر اور براہِ  راست  فٹ  بال گراؤنڈ  میں جا کر  فٹ بال  میچ دیکھنے سے بھی  اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق میں ہے:

"و هذه الكراهة تحريمية و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان، و أنه قال: قال أصحابنا و غيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم، و هو من الكبائر؛ لأنه متوعد عليه ... فينبغي أن يكون حرامًا لا مكروهًا إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، تغميض عينيه في الصلاة، ج: 2 ص: 29 ط: دار الکتاب الإسلامی)

 فتاوی مفتی محمود  میں ہے:

سوال:کیا فرماتے ہے علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کوئی ٹورنامنٹ دیکھتا ہے،اور  وہ نماز کے اوقات کے علاوہ ٹائم میں دیکھتا ہے،اور اس میں ٹکٹ خرید کر شامل ہوتا ہے،آیا اس کے لیے جائز ہے،کہ بطور تفریح کے دیکھ سکے۔

جواب:"لهو المؤمن باطل إلا في ثلث."(الحدیث) ٹورنامنٹ کا دیکھنا تضیع اوقات ہے جو کسی مسلمان کے شایاں نہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے کہ مسلمان کے ہر فعل میں کوئی صحیح مفید مقصد ہونا چاہیے، اور پھر بالخصوص ٹکٹ لےکر داخل ہونا اور بھی گناہ ہے اور یہ اجارہ بھی فاسدہ ہے ، اجارہ معصیات فاسد ہوتاہے اور تبذیر محض ہے جو بنص قرآنی جائز نہیں۔"

(کتاب الحضر والاباحۃ، ج: 11 ص: 250  ط: اشتیاق اے مشتاق پریس لاہور)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں