بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون کال پرہونے والے نکاح کا حکم


سوال

تقریباً 2 سال پہلے میری رشتے دار کا  کال پر  نکاح ہوا، لڑکا اٹلی میں ہے دونوں کا نکاح شریعت کے مطابق ہوا گواہ موجود تھے ،دونوں کی صرف کال پر بات ہوئی کبھی ملے نہیں، اب لڑکا کافی عرصے سے لڑکی سے بات تک نہیں کر رہا ،لڑکے کا کہنا ہے نہ میں طلاق دوں گا اور نہ ساتھ رکھوں گا جبکہ خود دوسری شادی کر لی، اب لڑکی کے پاس نکاح نامہ موجود نہیں ہے جس کی بنا پر وہ عدالت سے رجوع کر کے طلاق لے۔ لڑکی کو باندھ کے رکھا ہواہے، اس معاملے کو 2 سال ہو گئے لڑکی نے حق مہر معاف کر دیا اس کے باوجود وہ لڑکی کو نہیں چھوڑ رہا ،برائے مہربانی اس معاملے  میں رہنمائی کر دیں۔

جواب

 واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لئے شرعا یہ ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں ایجاب و قبول کرنے والے دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں  اس طور پر ایجاب و قبول کریں کہ یہی دو گواہان ان کی ایجاب و قبول کو سن لیں،چونکہ ٹیلی فون پر مجلس ایک نہیں ہو تی ہے  ، اس لئے نکاح منعقد نہیں ہوگا،جواز کی صورت یہ ہے کہ جس مقام پر نکاح ہو رہا ہے، دوسرا اسی جگہ ٹیلی فون پر اپنے لئے کوئی وکیل مقرر کریں پھر وہ وکیل اپنی مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول سرانجام دیں۔

صورت ِ مسئولہ میں اگر نکاح کا ایجاب  و قبول صرف فون کال پر لڑکے اور لڑکی کےدرمیان ہوا ،جس جگہ نکاح ہوا وہاں دوسرے فریق کی طرف سے کوئی وکیل نہیں تھا،تو  سرے سے یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا،لہذا اب موجودہ صورتِ حال میں طلاق  کی ضرورت ہی نہیں،اور اگر نکاح کی مجلس میں دوسرے فریق کی جانب سے کوئی وکیل موجود تھا ، جس نے اپنے مؤکل  کی جانب سے ایجاب یا قبول کیا ہو ،تو موجودہ صورت ِ حال میں   خاندان کے معزز افراد کو چاہیے کہ وہ شوہر کو سمجھائے ،اور اس کو اس رشتہ کو برقرار رکھنے اور اس رشتہ کے حقوق ادا کرنے پر آمادہ کریں،اگر سمجھانے کے باوجود  شوہر باز نہ آئے تو پھر   شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے،اس طرح  بیوی کو  لٹکا کر رکھنا شوہر کے لیے درست نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ  ۭ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ."   (سورۃ النساء،آیت:129)

ترجمہ:اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو  اور اگر اصلاح کرلو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں."(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح ،الباب الاول،269/1،ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة."

(کتاب النکاح،فصل فی رکن النکاح،231/2،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں