بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے علاج کا خرچہ کون اٹھائے گا؟


سوال

آپ نے بیوی کے علاج کے خرچہ کے سوال  کے سلسلے میں جواب تحریر فرمایا کہ بیوی کی بیماری کے علاج کا خرچہ شوہر پر واجب نہیں تو جناب بیوی تو کماتی نہیں تو اس کے علاج کا خرچہ کون اٹھائے گا؟ پھر نان نفقہ میں کیا علاج نہیں آتا؟ بیماری کی صورت میں وہ کس سے کہے گی میرا علاج کروائے؟

جواب

بیوی کا خرچہ شوہر پر قضاءً (قانونی طور پر) واجب نہیں، لیکن دیانۃً واجب ہے، لہذا شوہر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کا علاج معالجہ کرائے، اور شوہر کو اس کے نان نفقے کے ساتھ ساتھ اس کے علاج معالجہ کا خرچہ بھی دینا چاہیے، اور اگر شوہر اس کا خیال نہیں رکھتا تو ایسا شوہر شریعت کی نگاہ میں اچھا نہیں ہے، اور اسے اس کی بھرپور ترغیب دی جائے گی کہ وہ بیوی کے علاج کا خیال رکھے، البتہ اگر معاملہ عدالت تک چلا جاتا ہے تو عدالتی فیصلے کے مطابق شوہر پر علاج کا خرچہ لازم نہیں ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ کیجیے:

بیوی کے علاج کا خرچہ اور علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جانا کس کے ذمہ ہے؟

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 575):

"كما لايلزمه مداواتها.

(قوله: كما لايلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج. والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (10/ 7380):

"نفقات العلاج: قرر فقهاء المذاهب الأربعة  أن الزوج لايجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لا تجب الفاكهة لغير أدم. ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالبا إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلى العلاج كالحاجة إلى الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المريض يفضل غالبا ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟!"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں