بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوڈ پانڈا ایپ پر بینک کارڈ کے ذریعہ ڈسکاؤنٹ حاصل کرنے کا حکم


سوال

فوڈ پانڈا ایپ ہے اور ڈسکاؤنٹ سکیم چل رہی ہے،   اگر بینک کا کارڈ استعمال کریں اور اس کا پرومو کوڈ استعمال کریں تو اس کے ذریعہ ڈسکاؤنٹ ملتا ہے تو  یہ صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

فوڈ  پانڈا  ایپ کے ذریعے یا کسی بھی ریسٹورنٹ میں  بینک کارڈ استعمال  کرنے کے ذریعہ جو ڈسکاؤنٹ ملتا ہے اس میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

۱) اگر  یہ مکمل ڈسکاؤنٹ فوڈپانڈا یا ریسٹورنٹ سے  ملتا ہے اور بینک کی طرف سے اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا  تو پھر یہ ڈسکاؤنٹ  جائز ہے۔

۲) اگر مکمل ڈسکاؤنٹ بینک کی طرف سے ہے یعنی فوڈپانڈا یا ریسٹورنٹ کو بینک ادائیگی کرے گا تو ڈیبٹ کارڈ کی صورت میں قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور کریڈٹ کارڈ کی صورت میں  بینک کی طرف سے  ہدیہ ہونے  کی  وجہ  سے  حرام ہے ۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ کا مطلقًا بنوانا اور اس کا استعمال بھی شرعًا ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ  اس میں  سود ادا نہ  کیا جائے تو بھی بینک سے سودی معاملہ کیا جاتا ہے ۔

۳) اگر ڈسکاؤنٹ بینک اور فوڈپانڈا  یا ریسٹورنٹ کی طرف سے مشترک ہے تو پھر جتنا ڈسکاؤنٹ فوڈ پانڈا یا ریسٹورنٹ کی طرف سے ہے وہ جائز ہے اور جتنا بینک کی طرف سے ہے، وہ ناجائز ہے۔

۴)  اگر اس بات کی معلومات  ممکن نہ ہو   کہ ڈسکاؤنٹ کس  کی طرف سے ہے تو ایسی صورت میں اجتناب کرنا چاہیے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض."

(کتاب البیوع باب المرابحۃ فصل فی القرض ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"2762 - وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لايعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه.

(وبينهما مشتبهات) : بكسر الموحدة أي: أمور ملتبسة غير مبينة لكونها ذات جهة إلى كل من الحلال والحرام."

(کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال،ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۸۹۱،دار الفکر)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں