بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر اجنبی مرد سے بات کرنا / عورت کا اپنے میکے والوں سے ملنے کا حق


سوال

 شوہر اپنی بیوی سے موبائل پکڑتا ہے جس میں شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی نے ایک غیر مرد سے فون  پر کال  کی ہوئی ہوتی ہے۔ شوہر کے پوچھنے پر پہلے ٹال مٹول کرنے کے بعد بیوی اپنی غلطی تسلیم کرکے مان لیتی ہے کہ چند مہینہ پہلے اس غیر مرد کے پیغام کے  وقفے کے بعد  پھر بات کی ہے۔ البتہ کہتی ہے کہ واللہ ہمارے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں رہا ہے صرف فون کال پر تین سے چار دفعہ بات ہوئی ہے۔ اب سوال ہے کہ شریعت کا کیا حکم ہے؟ ایسی بیوی کو ساتھ رکھنا چاہئیے یا نہیں ؟ اگر رکھنا ہے تو کیسے اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے ؟ بیوی پر باہر آنے جانے یا رشتہ داروں کے آنے جانے کی پابندی کے شرعی اصول بھی بیان کریں۔

جواب

عورت کے لیے بلاضرورتِ شرعیہ خاوند کی موجودگی یاعدمِ موجودگی میں نامحرم مرد سے بات چیت کرنا گناہ کی بات ہے،شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ خصوصاً شوہر  کی غیر موجودگی میں بات چیت کرنا شوہر کے حقوق میں خیانت اور سخت جرم ہے۔ اگر کبھی نامحرم سے بات چیت کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو نگاہ بچاکر،سخت لہجہ اور آواز میں بات کرنی چاہیے، جیساکہ قرآنِ پاک  (سورہ احزاب) میں ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن کو  (امہات المؤمنین ہونے کےباجود) ہدایت کی گئی کہ اگر کسی امتی سے بات چیت کی نوبت آجائے تو نرم گفتگو نہ کریں،  مبادا اس شخص کے دل میں کوئی طمع نہ پیدا ہوجائے جو دل کا مریض ہو، بلکہ صاف اور دوٹوک بات کہیں۔چناں چہ فقہاء نے لکھا ہے کہ  اگر کسی ضرورت اور مجبوری سے نامحرم سے بات کرنی پڑے تو بہت مختصر بات کریں، ہاں، ناں کا جواب دے کر بات ختم کرڈالیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  عورت کا عمل ناجائز ہے، اس کو چاہیئے کہ سچے دل سے توبہ و استغفار کرے اور شوہر سے بھی معافی مانگے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے تو شوہر کو چاہیئے کہ اس کو معاف کردے۔ 

نیز شوہر کو  چاہیے کہ وقتًا فوقتًا اپنے خاندان اور عرف کے مطابق اپنی بیوی کو والدین اور محارم عزیز واقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت دے،  لیکن اگر شوہر اجازت نہیں دیتا تو  پھر شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ  شوہر کی اجازت کے بغیر والدین سے ہفتہ میں ایک دفعہ اور محرم رشتہ داروں سے سال میں  ایک دفعہ اور بعض فقهاء كے نزديك مهينے ميں ايك دفعه ملاقات کے  لیے جاسکتی ہے۔ البتہ اگر میکے جانے میں یا رشتہ داروں کے ہاں جاکر ملنے میں کسی فتنے  یا گھر ٹوٹنے کا اندیشہ ہو  یاشوہر  کسی معقول وجہ سے وہاں جاکر  ملنے سے روکتا ہو  تو اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا درست نہیں ہوگا،  اس صورت میں بیوی کے والدین اگر ہفتے میں ایک مرتبہ شوہر کے گھر آکر اپنی بیٹی سے ملنا چاہیں تو یہ ان کا حق ہوگا۔

اسی طرح والدین کے علاوہ دیگر رشتے دار بہن بھائی وغیرہ   ملاقات کے لئے آئیں تو بیوی ان سے اپنے شوہر کے گھر مل سکتی ہے لیکن شوہر کی اجازت کے بغیر  ٹھہرا نہیں سکتی، وہ ملاقات کر کے جا سکتے ہیں۔ اگر رشتے داروں سے ملنے میں فتنے وفساد کا اندیشہ ہو تو شوہر ان کو آنے سے منع کرسکتا ہے، لیکن بلا وجہ محض وہم اور بدگمانی کی بنیاد پر ایسا کرنا جائز نہیں ، یہ قطع رحمی کے زمرے میں آئے گا۔

رد المحتار میں ہے:

"فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."

 ( رد المحتار علي الدر المختار،406/1، سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"ینبغي أن یؤذن لھا في زیارتھما الحین بعد الحین علی قدر متعارف ... وفیه: الصحیح المفتی به تخرج للوالدین في کل جمعة بإذنه و بغیر إذنه و لزیارۃ المحارم في کلّ سنة مرة بإذنه وبغیر إذنه."

(البحرالرائق،كتاب الطلاق، باب النفقة،212/4، دارالكتاب الاسلامي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا - رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل كذا في فتاوى قاضي خان وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا هكذا في الهداية."

( الفتاویٰ الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكنى، 556/1، رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں