بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوم کے بنے ہوئے گدے کی ناپاکی اگر خشک ہوجائے تو اس پرچادر بچھا کر تلاوت و اذکار کرنے کا حکم


سوال

رات کو سوتے وقت خواب میں دیکھا کہ واش روم میں پیشاب کررہا ہوں، نیند کا غلبہ بہت تھا، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کپڑے گیلے ہیں، فوم کے گدے والا بستر تھا، وہ بھی گیلا تھا، اب وہ خشک ہو چکا ہے، میں اسے دھو نہیں سکا، اب اگر اس پر پلاسٹک بچھا کر اس کے اوپر بستر کی چادر بچھا لی جائے، تو کیا اس پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت اور دیگر اذکار کئے جاسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پیشاب کی وجہ سے نجس ہونے والا مذکورہ گدا اگر واقعۃً مکمل طورپر خشک ہوچکا ہو،تو اس پر پلاسٹک اور چادر وغیرہ  بچھا کرذکر و اذکار کرنا جائز ہے،لیکن قرآن مجید کی تلاوت کے لیے چٹائی کے مانند موٹا کپڑابچھانا ہوگا،  بہر صورت بہتر یہ ہے کہ گدے کو پاک کرلیا جائے۔

 گدے  کو پاک کرنے کا طریقہ: یہ ہے کہ گدے کی جس جگہ ناپاکی ہو  اس جگہ کو  خوب پانی بہا کر اتنی اچھی طرح دھویاجائے کہ نجاست زائل ہونے کا اطمینان حاصل ہوجائے ،یا ایک مرتبہ دھوکر ٹھہر جائیں یہا ں تک کہ اس میں سے پانی ٹپکنا بند ہو جائے ، جب پانی ٹپکنا بند ہو جائے تو پھر دھویا جائے اور دھونے کے بعد انتظار کیا جائے یہاں تک کہ پانی ٹپکنا بند ہو جائے ، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے گدا  پاک ہو جائے گا۔

احسن الفتاوی میں ہے:

"قالین تین دفعہ دھونے سے پاک ہوجائے گا،اس طرح کہ ہر مرتبہ تقاطر موقوف ہوجائےاگر نچوڑنا دشوارہو، اوراگرنچوڑنا دشوار نہ ہو تو تین بار نچوڑنا بھی ضروری ہے، یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ کسی برتن یا چھوٹے حوض میں ڈال کر دھویا جائے،اگراوپر سے پانی ڈالا یا بہتے پانی میں ڈالدیا تو نہ تثلیث شرط ہے اور نہ عصر، بلکہ یوں اندازہ لگایا جائے کہ اگر برتن میں پانی بھر کر اس میں کپڑا ڈالا جاتا تو جتنے پانی میں کپڑا ڈوب جاتا اس سے تین گنا پانی بہادینے سے کپڑا پاک ہوجائے گا۔"

(کتاب الطہارۃ، باب الانجاس، ج:2، ص:92، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو كانت النجاسة رطبة فألقى عليها ثوبا وصلى إن كان ثوبا يمكن أن يجعل من عرضه ثوبا كالنهالي يجوز عند محمد وإن كان لا يمكن لا يجوز إن كانت ‌يابسة ‌جازت إذا كان يصلح ساترا. كذا في الخلاصة.

وفي الفتاوى إذا ثنى ثوبه والأعلى طاهر دون الأسفل يجوز. كذا في السراج الوهاج وشرح المنية لابن أمير الحاج ناقلا عن المبتغى."

(كتاب الطهارة، الباب الثالث، الفصل الثاني، ج:1،ص:62،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لف ثوب نجس رطب في ثوب طاهر يابس فظهرت رطوبته على ثوب طاهر) كذا النسخ. وعبارة الكنز: على الثوب الطاهر (لكن لا يسيل لو عصر لا يتنجس).

(قوله لف ثوب نجس رطب) أي مبتل بماء ولم يظهر في الثوب الطاهر أثر النجاسة، بخلاف المبلول بنحو البول لأن النداوة حينئذ عين النجاسة، وبخلاف ما إذا ‌ظهر ‌في ‌الثوب ‌الطاهر أثر النجاسة من لون أو طعم أو ريح فإنه يتنجس كما حققه شارح المنية."

(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ج:6، ص:733، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"‌الحاصل ‌أن ‌الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجسا كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ.

قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لا يكره فيما يظهر فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهرا قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:194، ط:سعيد)

بحرالرائق میں ہے:

"ثم اشتراط العصر فيما ينعصر إنما هو فيما إذا غسل الثوب في الإجانة، أما إذا غمس الثوب في ماء جار حتى جرى عليه الماء طهر وكذا ما لا ينعصر ولا يشترط العصر ‌فيما ‌لا ‌ينعصر ولا التجفيف ‌فيما ‌لا ‌ينعصر ولا يشترط تكرار الغمس."

(كتاب الطهارة،باب الانجاس، ج:1، ص:250، ط:دارالكتاب الاسلامي)

مجمع الانہر میں ہے:

 "(وإلا) وإن ‌لم ‌يمكن ‌العصر كالحصير ونحوه (فيطهر بالتجفيف، كل مرة ينقطع التقاطر) ولا يشترط اليبس."

(كتاب الطهارة، باب الانجاس ، ج:1، ص:60، ط:دار احياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں