بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ پر جھگڑا / بیٹیوں کا نفقہ / نافرمان بیٹا


سوال

میرا ایک فلیٹ ہے جو میں نے خریدا ہے، البتہ رجسٹری میں میرا اور میری بیوی دونوں کا نام لکھوایا گیا ہے(رجسٹری ہم دونوں میاں بیوی کے نام کی گئی)، اب میرے اور میری بیوی کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی جس کی بناء پر میری بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے مذکورہ فلیٹ میں حصہ دو۔

1۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں طلاق دوں تب بھی اور اگر طلاق نہ دوں تب بھی (یعنی دونوں صورتوں میں) کیا میری بیوی کامیرے فلیٹ میں شرعاً کوئی حصہ بنتا ہے؟

2۔ اگر میں طلاق دوں تو میری اولاد (دو شادی شدہ بیٹیاں اور دو غیر شادی شدہ بیٹیاں البتہ بالغہ) کا نان نفقہ کس کے ذمہ ہو گا؟

3۔ میرا ایک بیٹا ہے جو اپنی ماں کی طرف ہے، ان دونوں نے مجھے مارنے اور مروانے کی دھمکیاں بھی دی ہیں، تو کیا شرعاً میں اپنے اس بیٹے سے قطع تعلقی کرسکتا ہوں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو گھر اپنی ذاتی رقم سے خریدا ہے اور رجسٹری میں بیوی کا نام بھی شامل کرایا تو اس نام شامل کردینے سےاہلیہ کی ملکیت نہیں ثابت ہو گی، بلکہ سائل اکیلا اس کا مالک ہے، اس کی بیوی کو اس فلیٹ میں سائل کی زندگی میں کوئی حق حاصل نہیں، لہٰذا اگر سائل اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے یا نہیں دیتا، اس سے سائل کے فلیٹ کی ملکیت میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔

2۔واضح رہے کہ جب تک بچیوں کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک ان کا نان نفقہ والد کے ذمہ لازم ہوتا ہے اور شادی کے بعد ان کے شوہر پر لازم ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی غیر شادی شدہ بیٹیوں کا نفقہ سائل کے اوپر لازم ہے خواہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے یا نہ دے۔

3۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیٹے نے سائل کو تکلیف پہنچا کر سخت گناہ کیا ہے جس پر اس کو توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، البتہ سائل کو چاہیے کہ شفقت کے ساتھ اپنے بیٹے کو سمجھائے اور قطع تعلقی نہ کرے، تاہم اگر سائل کے سمجھانے سے بھی نہ سمجھے تو سائل جب تک اس کا بیٹا تنگ کرنے سے باز نہ آئے، اس سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت تک قطع تعلقی کر سکتا ہے جب تک وہ اپنی حرکت پر نادم نہ ہو۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به."

(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، ج: 6، ص: 263، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1، ص: 562، ط: دار الفكر بیروت)

فتح الباری میں ہے:

"‌‌(قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها... قال المهلب غرض البخاري في هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأنه يتنوع بقدر الجرم فمن كان من أهل العصيان يستحق الهجران بترك المكالمة كما في قصة كعب وصاحبيه وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فيجوز الهجر فيه بترك التسمية مثلا أو بترك بسط الوجه مع عدم هجر السلام والكلام."

(باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ج: 10، ص: 497، ط: دار المعرفة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310100397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں