بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ کی بکنگ میں لگائی ہوئی رقم میں زکاۃ کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میں نے ایک فلیٹ بُک کرایا ہے جس کی قیمت اسی لاکھ روپے ہے ،اس میں سے میں نے تیس لاکھ  روپے ادا کر دئیے ہیں باقی رقم تین سال میں ادا کرنی ہے ،اس میں زکوۃ کا حساب کیا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نےجو فلیٹ کی بکنگ کرائی ہےاس میں زکوۃ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ فلیٹ ابھی تک تعمیر نہیں ہواتو مذکورہ معاملہ کی حیثیت وعدۂ بیع کی ہے،اور سائل کے دیئے ہوئے تیس لاکھ روپے،بائع کے پاس بطورامانت کے ہیں اور چوں کہ وہ سائل ہی کی ملکیت ہیں لہذا اُن تیس لاکھ روپے کی ڈھائی فیصد  زکوۃ   ادا کرنا لازم ہے۔

اور اگر وہ فلیٹ مکمل یا کم از کم اس کا ڈھانچہ تیار ہوچکا ہے تو اگر سائل نے وہ فلیٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا تب تو نہ، ان تیس لاکھ روپے پر زکوۃ ہے اور نہ ہی اس فلیٹ پر ،اور اگر واجب الادا  پچاس لاکھ روپےمیں سے ایک سال کی قسطیں منہا کرنے کے بعد باقی مال زائد از ضرورت بقدرِ نصاب موجود ہے تو فقط اسی کی زکاۃ لازم ہوگی،اور اگراس فلیٹ کو تجارت کی نیت سے خریدا ہو تو اس فلیٹ کی زکاۃ نکالتے وقت جو قیمت ہوگی اسی کے حساب سے،فلیٹ کی زكاة نكالناسائل پر لازم ہوگا، جس کا طریقہ یہ ہوگافلیٹ سمیت سائل کی کُل مالیت میں سےایک سال کی قسطوں کی رقم منہا کرنے کےبعد اگر بقیہ مال زائد از ضرورت بقدرِنصاب ہو تو سائل پر اس کا ڈھائی فیصد نکالنا لازم ہوگا۔

در مختار میں ہے:

 "فلا زكاة...ومدفون ببرية نسي مكانه ثم تذكره وكذا الوديعة عند غير معارفه."

(ص:266،ج:2،کتاب الزکوۃ،ط:سعید)

در مختار ميں ہے:

"فارغ  عن حاجته الأصلية  لأن المشغول بها كالمعدوم."

اس کے ذیل میں رد المحتار میں ہے:

"قوله وفسره ابن ملك  أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية ... وذلك حيث قال وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب..."

(ص:262،ج:2،کتاب الزکوۃ،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب...وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم."

(ص:170،ج:1،کتاب الزکوۃ،‌‌الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ط:دار الفکر،بیروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا."

(ص:6،ج:2،کتاب الزکاۃ،ط:دار الکتب العلمیة،بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں