بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ بننے سے پہلے خرید لینا


سوال

ہم نے پڑھا تھا کہ جس چیز کا وجود نہ ہو، اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے اور یا جو چیز قبضہ میں نہ ہو ، لیکن آج کل جو بڑی بڑی بلڈنگ بنتی ہیں ان میں دکان اور مکان کا ابھی وجود نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس کی خرید و فروخت ہو جاتی ہے، اب اس کا تفصیلی حکم کیا ہے؟

جواب

جی ہاں!  جب تک اس فلیٹ کا اسٹرکچر (ڈھانچا) بن نہ جائے تب تک اس کا بیچنا جائز نہیں۔ البتہ اگر بنانے والا وعدہ کرلے کہ جب بن جائے گا تو میں تم کو بیچ دوں گا تو یہ جائز ہے۔یہ بیع نہیں بلکہ بیع کا وعدہ ہے، پھر جب بن جائے تو یہ بلڈر اس کو بیچ دے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 277):

"ولو بعده على وجه الميعاد جاز لزم الوفاء به؛ لأنّ المواعيد قد تكون لازمةً لحاجة الناس، وهو الصحيح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 84):

"وفي جامع الفصولين أيضًا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمةً فيجعل لازمًا لحاجة الناس تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة، ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لايشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـ وبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109201948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں