۱) میں ایک ویب ڈویلپر ہوں، اور ہمارا کام fiverr پر ہوتا ہے جو کہ ایک اسرائیلی کمپنی ہے، اور fiverr اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہے۔تو کیا ایسے پلیٹ فارم پر کام کرنا جائز ہے؟ نیز بعض اوقات ہمیں ایسی ویب سائٹس بنانی پڑتی ہیں جو حرام چیزوں سے متعلق ہوتی ہیں، جیسے:شراب فروخت کرنے والی ویب سائٹس، عورتوں کی تصاویر لگانا (چاہے وہ فرضی/ڈمی تصاویر ہوں یا اصلی) وغیرہ۔ ایسی ویب سائٹس بنانا یا ایسی تصاویر لگانا شرعاً کیسا ہے؟
۲) ہمارے کلائنٹس اکثر غیر مسلم ہوتے ہیں، اور ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کون اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور کون نہیں؟۔ایسے کلائنٹس کے لیے کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟
۴) ہم لیپ ٹاپ، موبائل اور دوسری ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں اپنے کام کے لیے۔ ان چیزوں کا استعمال کس حد تک جائز ہے؟
۱-۲) شراب فروخت کرنے والی ویب سائٹس یا ایسی ویب سائٹس بنانا جن میں شریعت کی خلاف ورزی پائی جائے، جیسے جاندار کی تصاویر بنانا، موسیقی، یا دیگر ناجائز امور، شرعاً ناجائز اور ممنوع ہے، اور یہ ممانعت ہر حال میں ہے، خواہ وہ کام کسی بھی پلیٹ فارم پر ہو اور کلائنٹ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اور چاہے وہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، شرعی احکام کا تقاضا یہی ہے کہ کسی بھی ناجائز کام میں تعاون نہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ فائیور کے پلیٹ فارم سے ایسے مختلف کام کرنا، جس میں شریعت کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو اگر چہ شرعًا فی نفسہ حرام نہیں، لیکن چوں کہ اس ویب سائٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ اسرائیلی کمپنی کو بھی جاتا ہے، اور اسرائیل کی معیشت کو فائدہ پہنچاتا ہے، اس لیے اس ویب سائٹ پر کام کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔
۳) جدید ٹیکنالوجی کا جائز استعمال جائز ہے اور ناجائز استعمال ناجائز ہے۔
لہذا لیپ ٹاپ، موبائل اور دوسری ٹیکنالوجی کا استعمال جائز اور نافع مقاصد کے لیے ہوتو ان کا استعمال جائز ہے، اور اگر ان کا استعمال ناجائز یا حرام مقاصد کے لیے کیا جائے تو ان کا استعمال شرعاً ناجائز اور گناہ ہو گا۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. "(المائدہ، الآیۃ: 2)
ترجمہ:”اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو “(از بیان القرآن)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح."
)كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:189، ط: دار الكتب العلمية)
الموسوعة الفقهية الكويتية ميں هے:
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة."
(إجارة، الفصل السابع، الفرع الثالث، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج: 1، ص290،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
”یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا اور ان کو نفع پہنچانا جائز نہیں ہے، یہودی اسلام کے خلاف آج کل محارب ہیں، ان کے ارادے یہ ہیں کہ حجازِ مقدس بالخصوص مدینہ طیبہ زادہا اللہ شرفاً اور اس کے گرد و نواح کو فتح کر لیں، ان کے زعم میں یہ دراصل یہودی علاقے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہودِ مدینہ، بنی نظیر، بنی قینقاع، یہود خیبر ان علاقوں کے مالک تھے، اس حالت میں کوئی ایسی چیز بازار سے نہ خریدی جائے جس سے یہودی کی مالی پوزیشن مستحکم ہو، قرآن کریم میں ہے:ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح...الآية، لا نکرہ ہے، تحت النفی مفید استغراق ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دشمن کو کسی طرح کوئی بھی نقصان پہنچانا عملِ صالح ہے، فقہاء کی عبارات سے بھی اسی طرح کے حوالہ جات نقل کیے جا سکتے ہیں کہ مسلمانِ عالم کو اجتماعی طور پر یہودیوں کے اموال تجارت کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے ۔“
(باب الحظر والاباحۃ، عنوان:یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا، ج:11، ص:204، ط:جمعیت پبلیکیشنز)
آلات جدیدہ کے شرعی احکام میں مفتی شفیعؒ لکھتےہیں :
"جوآلات جائز کاموں میں بھی استعمال ہوتے ہیں ،ناجائز میں بھی،جیسےجنگی اسلحہ کہ اسلام کی تائید وحمایت میں بھی استعمال ہوسکتاہے،مخالفت میں بھی،یاٹیلی فون ،تار موٹر ،ہوائی جہاز ،ہرقسم کی جائز وناجائز ،عبادات ومعصیت میں استعمال ہوسکتےہیں،ان کی ایجاد ،صنعت،تجارت ،جائز کاموں کی نیت سے جائز ہے، اور جائز کا موں میں اس کا استعمال بھی جائز ہے،حرام اور معصیت کی نیت سے بنایاجائےیا اس میں استعمال کیا جائےتوحرام ہے" ۔
(آلات جدیدہ کےشرعی احکام ص :15 ط:ادارۃ المعارف کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن