بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فطرانہ اور فدیہ کی رقم مستحقین کی افطار کے لیے استعمال کرنا


سوال

کیا فطرانہ اور  روزہ   کے  فدیہ  کی  رقم مستحقین کے افطار کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے؟

جواب

۱)فطرانہ کی مقدار یہ ہے کہ پونے دو کلو گندم یا ساڑھے تین کلو جو یا کشمش یا کھجور یا اس کی قیمت کا کسی مستحق زکوۃ کو مالک بنایا جائے؛  لہذاصورتِ  مسئولہ میں سائل اگر فطرانہ کی رقم سے افطار کروانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہےفطرانہ  کی قیمت کے برابر افطاری کا سامان خرید کر فقیر کو مالک بنادے،  مثلًا پونے دو کلو گندم کی قیمت  کراچی اور اس کے مضافات میں 140  روپے ہے تو  140 روپے کا افطاری کا سامان خرید کر  کسی مستحق کو مالک بنادے تو اس صورت میں فطرانہ ادا ہوجائے گا ، کسی دستر خوان پر مدعو کر کے افطاری کروانے سے فدیہ ادا نہیں ہوگا۔

۲)  فدیہ کی مقدار  پونے دو کلو گندم یا ساڑھے تین کلو جو یا کشمش یا کھجور یا اس کی قیمت کا کسی مستحق زکوۃ کو مالک بنایا جائے  یا دو وقت کا کسی مستحق کو پیٹ بھر کھانا کھلا یا جائے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ  میں  فدیہ  کی رقم سے اگر افطار کروانا چاہتا ہے تو اس رقم سے دو وقت کا پیٹ بھر کھانا کھلائے یا پھر اس رقم سے افطاری کا سامان خرید کر کسی مستحق کو دے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

«(ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمدا فوجوبها عليه بالأولى (وفدى) لزوما (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت»

«(قوله قدرا) أي التشبيه بالفطرة من حيث القدر إذ لا يشترط التمليك هنا بل تكفي الإباحة بخلاف الفطرة وكذا هي مثل الفطرة من حيث الجنس وجواز أداء القيمة.»

(کتاب الصوم  فصل فی العوارض المبیحۃ للصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۲۴،ایچ ایم سعید)

«فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے:

«ويجوز في الفدية طعام الإباحة أكلتان مشبعتان بخلاف صدقة الفطر للتنصيص على الصدقة فيها، والإطعام في الفدية.»

(کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء و الکفارہ فصل کان مریضا فی رمضان ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۵۷،شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں