بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فتنہ دھیماء اور اس کا مصداق


سوال

فتنہ دہیما سے کیا مراد ہے ؟ کیا حدیث میں ایسے کسی  فتنہ کا ذکر ہے ؟

جواب

رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت پر آنے والے  جن  چند بڑے  فتنوں کی پیشن گوئی فرمائی ہے ان میں سے ایک فتنہ  "دهیماء"  بھی ہے، اس کی تفصیل ایک طویل حدیث میں مذکور ہے۔  وہ یہ ہے:

”حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر شروع فرمایا اور  بہت سارے فتنوں کو بیان کیا، یہاں تک کہ ”فتنه أحلاس“  کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ احلاس کا فتنہ کیا ہے؟  (یعنی اس فتنہ کی نوعیت کیا ہوگی اور وہ کس صورتِ حال میں ظاہر ہوگا؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا:  وہ بھاگنا اور مال کا ناحق لینا ہے،  (یعنی اس فتنہ کی صورت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں سخت بغض وعداوت رکھنے اور باہمی نفرت و دشمنی کی وجہ سے ایک دوسرے سے بھاگیں گے ، کوئی کسی کی صورت دیکھنے اور کسی کے ساتھ نباہ کرنے کا روادار نہیں ہوگا، ایک دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے اور ایک دوسرے کو ہڑپ کر لینے کا بازار گرم ہوگا۔ 

اور پھر  ”سراء کا فتنہ“ ہے، اس فتنہ کی تاریکی اور تباہی اس شخص کے قدموں کے نیچے سے نکلے گی (یعنی اس فتنہ کا بانی وہ شخص ہوگا) جو میرے اہلِ بیت میں سے ہوگا، اس شخص کا گمان تو یہ ہوگا کہ وہ فعل و کردار کے اعتبار  سے  بھی  میرے اہلِ بیت میں سے ہے،  لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ وہ خواہ نسب کے اعتبار سے  بھلے ہی میرے اہلِ بیت میں سے ہو، مگر فعل وکردار کے اعتبار سے میرے اپنوں میں سے ہرگز نہیں ہوگا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے دوست اور میرے اپنے تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پرہیز گار ہوں۔ 

پھر اس فتنہ کے بعد لوگ ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کریں گے جو پسلی کے اوپر کولہے کی مانند ہوگا، پھر ”دهیماء کا فتنہ“ ظاہر ہوگا۔ اور وہ فتنہ اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑے گا جس پر اس کا طمانچہ، طمانچہ کے طور پر نہ لگے (یعنی وہ فتنہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہوگا کہ امت کے ہر شخص تک اس کے برے اثرات پہنچیں گے اور ہر مسلمان اس کے ضرر و نقصان میں مبتلا ہوگا) اور جب کہا جائے گا کہ یہ فتنہ ختم ہو گیا ہے تو اس کی مدت کچھ اور بڑھ جائے گی یعنی لوگ یہ گمان کریں گے کہ فتنہ ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت میں وہ ختم کی حد تک پہنچا ہوا نہیں ہوگا،  بلکہ کچھ اور طویل ہو گیا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ کسی وقت اس کا اثر کچھ کم ہو جائے، جس سے لوگ اس کے ختم ہو جانے کا گمان کرنے لگیں، لیکن بعد میں پھر بڑھ جائے گا، اس وقت آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا (یعنی اس فتنہ کے اثرات سے لوگوں کے دل ودماغ کی حالت کیفیت میں اس قدر تیزی کے ساتھ  تبدیلی پیدا ہوتی رہے گی کہ مثلًا ایک شخص صبح کو اٹھے گا تو اس کا ایمان وعقیدہ صحیح ہوگا اور اس پختہ اعتقاد کا حامل ہوگا کہ کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا یا اس کی آبروریزی کرنا اور یا اس کے مال واسباب کو ہڑپ کرنا ونقصان پہنچانا مطلقاً حلال نہیں ہے،  مگر شام ہوتے ہوتے اس کے ایمان وعقیدہ میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کرنے لگے گا  کہ گویا اس کے نزدیک کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا، اس کی آبروریزی کرنا اور اس کے مال وجائیداد کو ہڑپ کرنا نقصان پہنچانا جائز و حلال ہے)، اس طرح جو صبح کے وقت مومن تھا شام کو اس عقیدے  کی تبدیلی کی وجہ سے کافر ہو جائے گا اور یہ صورت حال جاری رہے گی؛  یہاں تک کہ  لوگ خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ ایک خیمہ ایمان کا ہوگا کہ اس میں نفاق نہیں  ہوگا اور ایک خیمہ نفاق کا ہوگا کہ اس میں ایمان نہیں ہوگا۔ جب یہ بات ظہور میں آ جائے تو پھر اس دن یا اس کے اگلے دن ، دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا۔"  (ابو داؤد)

سنن أبي داود (4/ 94):

"عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ: " هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ، دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي، وَلَيْسَ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ، ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ، ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ، لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً، فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ، تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ، فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ [ص:95]، وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ، فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ، مِنْ يَوْمِهِ، أَوْ مِنْ غَدِهِ."

فتنہ دہیماء کے مصداق سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے  چھٹی صدی ہجری میں  بغداد پر تاتاریوں کے حملہ اور عام خونریزی کا فتنہ مراد ہے، جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ، اور یہ انتہائی سخت فتنہ تھا، جس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔

حجة الله البالغة (2/ 331):

"و الفتنة الدهيماء تغلب الجنكيزية على المسلمين ونهبهم بلاد الإسلام ...

الفتن العظيمة التي أخبر بها النبي صلى الله عليه وسلم أربع:

الأولى: فتنة أمارة على أقذاء، وذلك صادق بمشاجرات الصحابة بعد مقتل عثمان رضي الله عنه إلى أن استقرت خلافة معاوية، وهي التي أشير إليها بقوله: " هدنة عل دخن " وهو الذي يعرف أمره وينكر لأنه كان على سيرة الملوك لا على سيرة الخلفاء قبله.
الثانية: فتنة الأحلاس، و فتنة الدعاة إلى أبواب جهنم، و ذلك صادق باختلاف الناس و خروجهم طالبين الخلافة بعد موت معاوية إلى أن استقرت خلافة عبد الملك.
الثالثة: فتنة السراء. و الجبرية. و العتو، و ذلك صادق بخروج بني العباس على بني أمية إلى أن استقرت خلافة العباسية و مهدوها على رسوم الأكاسرة و أخذوا بجبرية و عتو.
الرابعة: فتنة تلطم جميع الناس إذا قيل: انقضت تمادت حتى رجع الناس إلى فسطاطتين و ذلك صادق بخروج الأتراك الجنكيزية و إبطالهم خلافة بني العباس و مزقهم على وجهها الفتن."

حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : یہ فتنہ امام مہدی کے ظہور سے کچھ پہلے پایا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے نزول تک چلتا رہے گا ، اور حدیث کے آخری  لفظ  سے بھی اس کی طرف اشارہ  مل رہا ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (12/ 272):

"فإذا كان ذاكم فانتظروا الدجال) أي ظهوره (من يومه أو من غَدِه) وهذا يؤيد أن المراد بالفسطاطين المدينتان، فإن المهدي يكون في بيت المقدس فيحاصره الدجال، فينزل عيسى عليه الصلاة والسلام فيذوب الملعون كالملح ينماع في الماء، فيطعنه بحربة له فيقتله، فيحصل الفرج العام، والفرح التام، وهذه الفتنة بعد وستكون قبيل ظهور المهدي، ويمتد إلى نزول عيسى بن مريم عليه الصلاة والسلام."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں