بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرعون کو دفن نہیں کیا گیا تو اس کو عذاب کس طرح ہورہا ہے؟ / کیا مصر کے میوزیم میں موجود لاش فرعون کی ہے؟ / کیا عذابِ قبر کے لیے مردے کو دفنانا ضروری ہے؟


سوال

فرعون کو کس طرح عذاب ہورہا ہے،  جب کہ وہ دنیا میں ہے دفن نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ  مردے کو تو دفنا نے کے بعد عذاب ہوتا ہے؟

جواب

مذکورہ سوال کے جواب سے پہلے  بطورِ تمہید چند باتوں کا جاننا ضروری ہے:

1) قبر  کا ثواب  وعذاب قرآن مجید کی متعدد آیات اوراحادیثِ نبویہ  سے  ثابت ہے اوراس سلسلے میں اتنی حدیثیں وارد ہوئی  ہیں کہ بعض محدثین نے ان کو معناً متواتر قراردیا ہے،  اوراہلِ اسلام کاشروع دور سے یہ متفقہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ قبر میں نیکوکاروں کو ثواب اور بدکاروں کو عذاب ہوتاہے، اس پر  اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے،  اور یہ عقیدہ درحقیقت عقیدۂ آخرت کا تکملہ و تتمہ ہے، جو اسلام کا بنیادی و اساسی عقیدہ ہے۔

2) انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا،  بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برز خ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر)  کہتے ہیں، اور قبر سے مراد صرف مٹی کا گڑھا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کا جسم مرنے کے بعد جہاں چلاجائے وہی اُس کی قبر ہے، اسی مناسبت سے عموماً عالمِ برزخ کے عذاب کو "عذابِ قبر" سے تعبیر کیا جاتاہے، الغرض مردہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیوی عالم میں نہیں ہوتا، بلکہ  اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اور اس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے؛  لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ  گزرتا ہے ، اس کا اس  دنیا میں مشاہدہ  عام طورپرنہیں ہوتا، لیکن ہمارے نہ دیکھنے یا محسوس نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردے کو تکلیف یا راحت محسوس نہیں ہورہی، بلکہ اسے راحت اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے، مگر یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہم سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہنے کی بدولت انسان اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو اور اس کی آزمائش بھی ہو۔

تقریبِ فہم کے لیے  اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ انسان سوتاہے اور عالمِ یقظہ (بیداری) سے عالمِ نوم(سونے کے عالم) کوپہنچ جاتاہے،  اور اس دوسرے عالم (سونے کے عالم) میں وہ خواب کے اندرکبھی اچھی اور دل خوش کن باتیں اورکبھی اذیت ناک وتکلیف دہ امورکا مشاہدہ کرتاہے اور اس عالم میں دوسرو ں سے سنتااور گفتگوکرتاہے،کبھی دوڑتا، مارتا، کھاتا، پیتا بھی ہے، اور اس سے بڑھ کر بعض اوقات خواب میں محسوس کی گئی جسمانی، مالی یا روحانی تکلیف حقیقت میں بھی لاحق ہوجاتی ہے اور بعض اوقات خواب میں حاصل ہونے والی راحت بیداری میں بھی حاصل ہوجاتی ہے، حالاں کہ اس سب کے باوجود اسی کے پاس بیٹھے ہوئے افراد کوجو عالمِ یقظہ میں ہیں،  اس دوسرے عالم کی کوئی خبرنہیں ہوتی ۔ اس مثال سے  عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا کافرق ظاہر ہوجاتا ہے، نیز اُس عالم کی بہت سی باتو ں کے  ہمارے مشاہدہ میں نہ آنے کی بات قریب الفہم ہوجاتی ہے، ورنہ وہاں کے احوال کو اس دنیا میں رہتے ہوئے دیکھا اور سمجھا نہیں جاسکتا۔

3) دنیا میں مردے کے جسم پر راحت  یا عذاب کے آثار کا ان آنکھوں سے مشاہدہ نہ کرنے کی بناء پر عذابِ قبر کا انکار کرنا کسی طرح درست نہیں؛ کیوں کہ   انسان کا اپنی ظاہری آنکھوں سے کسی چیز کا نہ دیکھنا اُس چیز کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اگرچہ جبریل ؑ کو نبی کریم ﷺ  کے پاس آتے ہوئے اور وحی لاتے ہوئے نہیں دیکھتے تھے، مگر یہ ایمان رکھتے تھے کہ نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہے، اور یہی ایمان تمام امت بھی رکھتی ہے، حالاں کہ بعد والوں نے نہ نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور نہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا، لہٰذا اگر ہر چیز کو انسان اپنے ظاہری مشاہدے اور عقل  پر موقوف رکھے تو اسے لامحالہ ایمان سے ہی ہاتھ دھونا پڑ جائے گا، اس لیے مسلمان کو اللہ رب العزت کی قدرتِ کاملہ پر نظر رکھنی  چاہیے کہ جو اللہ سبز درخت کے اندر آگ چھپانے پر قادر ہے وہ اپنے بندوں کو اس طرح ثواب  وعذاب دینے پر بھی قادر ہے کہ جسے دوسرے بندے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں۔

4) فرعون کے بارے میں قرآن مجید  اور دیگر نصوصِ شرعیہ  میں یہ صراحت نہیں ہے کہ فرعون کی لاش کو قیامت تک کے لیے محفوظ رکھا جائے گا، ہاں سورۂ یونس میں یہ آیت موجود ہے کہ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً، یعنی فرعون کو اللہ رب العزت نے مخاطب کرکے فرمایا کہ آج ہم تیرے بدن کو غرقابی سے نجات دیں گے تاکہ تو اُن لوگوں کے لیے عبرت ہو جو تیرے بعد موجود  ہیں، اور اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرعون کے غرق ہونے کی خبر جب حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام نے بنی اسرائیل کو دی، تو وہ لوگ فرعون سے اتنے مرعوب تھے کہ انھوں نے اس بات کا انکار کیا اور کہا کہ فرعون کبھی بھی نہیں مر سکتا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے تصدیق کے لیے فرعون کی لاش کو دریا سے نکال کر ایک اونچے مقام پر ڈال دیا جہاں سے سب نے اُس کی لاش کو دیکھ لیا، پھر اس کے بعد فرعون کی لاش کا کیا ہوا، اس کی کوئی صراحت موجود نہیں، مصر کے میوزیم میں جو لاش رکھی ہوئی ہے اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ  اسی فرعون کی لاش ہے جس کا حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام سے مقابلہ ہوا تھا؛ کیوں کہ اس دور میں مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولاً تو سائل کا  جزم کے ساتھ یہ کہنا ہی درست نہیں ہے کہ فرعون کو دفن نہیں کیا گیا؛ کیوں کہ اس کی صراحت کسی نص میں موجود نہیں،  اور قرآن مجید کی جس آیت سے عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لگتا ہے اس آیت کی تفسیر تمہید میں بیان کردی گئی ہے، نیز اگر مان بھی لیا جائے کہ فرعون کی لاش کو دفن نہیں کیا گیا، بلکہ وہ زمین کے اوپر ہی کہیں موجود ہے، تب بھی سائل کا یہ مفروضہ کہ مردے کو تو قبر میں دفنانے کے بعد عذاب  ہوتا ہے، درست نہیں؛ کیوں کہ  یہ بات  علمائے امت کی تصریحات کے خلاف ہے،  لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ فرعون کی لاش یا اس کے جسم کے اجزاء جہاں بھی ہوں انھیں اس کے اعمال کے مطابق عذاب ہورہا ہے۔

قرآن مجید میں آلِ فرعون کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

" النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ"

(سورة المؤمن، الأية: ٤٦)

ترجمہ: اور فرعون والوں پر (مع فرعون کے) موذی عذاب نازل ہوا (جس کا آگے بیان ہے کہ) وہ لوگ (برزخ میں) صبح وشام  آگ کے سامنے لاوے جاتے ہیں (اور اُن کو بتلایا جاتا ہے کہ تم قیامت کے روز اس میں داخل ہوگے) اور جس روز قیامت قایم ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔

(بیان القرآن، جلد ١٠، ص: ٤٢، ط: میر محمد کتب خانہ)

اس آیت کی تفسیر میں مولانامحمد مالک صاحب کاندھلوی ؒ معارف القرآن کے تکملہ میں فرماتے ہیں:

"عالم ِ برزخ اور وہاں کا ثواب وعذاب اور راحت وتکلیف امرِ قطعی ہے اور جس طرح آخرت پر اور آخرت کے ثواب وعقاب پر ایمان ضروری ہے، اسی طرح برزخ  کے ثواب وعقاب پر بھی ایمان ویقین ضروری ہے۔۔۔ "برزخ" دنیا اور آخرت کے درمیان ایک درمیانی عالم کا نام ہے جس جگہ بھی اور جس حال میں بھی مردہ مرنے کے بعد سےلے کر  یوم البعث تک رہے گا، وہی برزخ ہے، خواہ مردہ قبر میں دفنایا جائے یا سمندر میں ڈبو دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے یا کوئی جانور یا درندہ اس کو کھالے، غرض اس جملہ احوال کا عنوان برزخ ہے اور اسی کو اصطلاحی طور پر "قبر" کہا جاتا ہے، اگرچہ قبر  لفظی طور سے زمین کے گھڑے کو کہتے ہیں، مگر شریعت کی نظر  میں یہ جملہ احوال عالم ِقبر ہی شمار کیے جاتے ہیں ۔"

(تکملہ معارف القرآن کاندھلوی، ٧/ ١٥٩، ط: مکتبۃ المعارف)

النبراس میں ہے:

"وعذاب القبر للكافرين ولبعض عُصاةِ المؤمنين، وتنعيم أهل الطاعة في القبر، وسؤال منكر ونكير ثابت بالدلائل السمعية.

قال المصنف رَحِمَهُ اللهُ: (وعذاب القبر) مبتدأ والخبر: ثابت، والإضافة بمعنى: في، وقيل: عذاب أهل القبر  على حذف المضاف والمراد به عذاب يكون بعد الموت قبل البعث، سواء كان الميت مقبورًا أم لا، وإنما أضيف إلى القبر ؛ نظرًا على الغالب.

(وبالجملة: الأحاديث الواردة في هذا المعنى) في حال القبر (وفي كثير من أحوال الآخرة) كالبعث والحساب والصراط والحوض والشفاعة (متواترة المعنى، وإن لم يبلغ آحادها) بمد الهمزة على «أفعال» جمع أَحَدٍ أي لم يبلغ أفرادها من حيث ألفاظها (حد التواتر)."

(الكلام في المعاد، ص: ٤٣٥ - ٤٤٢، ط: دار ياسين استنبول)

الجواہر البہیۃ شرح العقائد النسفیۃ میں ہے:

"ولما يرد عليه: لو كان عذاب القبر بإحياء الميت، وجب أن يتحرك ويضطرب في قبره، و أن يرى أثر العذاب عليه: من الإحراق والضرب، و اللوازم كلها باطلة، لأنا نشاهد الكافر وصاحب الذنوب الكبيرة ونراقبهما مدة، ولا نشاهد هذه الأمور فيهما فأجاب عنه: (ولا أن يتحرك ويضطرب أو يرى أثر العذاب عليه)،  ووجه الدفع أن كونه حيا لا يوجب رؤية هذه الأمور فيه، فإن هذه العين لا تصلح لمشاهدة هذه الأمور الملكوتية اللتي من جملتها الأحوال المتعلقة بالأخرة، فيجوز أن يحي الميت، ويشاهد هذه الأمور الملكوتية، فينعم أو يعذب ولا نشاهد حياته، وما يصل إليه من تلك الأمور، قال: الحجة في الإحياء، و الأصح أن تصدق بأن الحية، مثلا: موجودة تلدغ الميت، ولكنا لا نشاهد ذلك، فإن هذه العين لاتصلح لمشاهدة تلك الأمور الملكوتية، وكل ما يتعلق بالأخرة، فهو من عالم الملكوت، ألا ترى أن الصحابة كيف كانوا يؤمنون بنزول جبرئيل، وما كانوا يشاهدونه، ويؤمنون بأنه يشاهده، فإن كنت لاتومن بهذا، فتصحيح الإيمان بالملائكة والوحي أهم عليك، وإن أمنت به، و جوزت أن يشاهد النبي مالا تشاهده الأمة، فكيف لايجوز هذا في الميت، و إن تتذكر أمر النائم، فإنه يرى في منامه حية تلدغ، وهو يتألم بذلك، حتى تراه في نومه يصيح، ويعرق جبينة، وقد ينزعج عن مكانه، كل ذلك يدرك من نفسه، و يتأذى به، كما يتأذى البقطان، وهو يشاهده، و أنت ترى ظاهره ساكنا، ولاترى حواليه حية، والحية موجودة في حقه، والعذاب حاصل له. ولكنه في حقك غير مشاهد، وبذلك ينقلع عرق شبهة المنكرين بالكلية، وقالوا: ومن الموتى ربما يأكله السبع أو يحرق في النار فيصير رمادا تذروه الرياح في المشارق والمغارب، فكيف يعقل حياته وعذابه وسؤاله؟ وأجاب عنه بعض المحقيقين بأن هذا هوس و مجرد استبعاد بخلاف المعتاد وهو لاينفي الإمكان، قال المحقق الدواني: وإنما الحق الذي انكشف لنا بطريق الاستبصار أن كل ذلك في حيز الإمكان، وإن من ينكر بعض ذلك، فهو نطيق حوصلته، وجهله باتساع قدرة الله سبحانه، وعجائب تدبيره، فينكر من أفعال الله تعالى مالم يأنس به، ولم يالفه، و ذلك جهل وقصور، فتامل ولاتغفل.

(حتى أن الغريق في الماء والمأكول في بطون الحيوانات المصلوب في الهواء يعذب و ان لم نطلع عليه): هذا دليل على عدم الاستلزام، يقول: إن الميت في بطون السباع وقعور الأبحار، والمصلوب في الفضاء يُحي ويسئل وينعم ويعذب، ولا ينبغي أن ينكر؛ لأن من أخفى النار في الشجر الأخضر قادر على إخفاء العذاب والنعيم هذه الأمور، فتدبر."

(براهين بعض القدرية والرافضة في إنكار عذاب القبر، ٣/ ١٤، ط: الجامعة الحسينية براندير، سورت)

کتاب الروح میں ہے:

"البرزخ ونعيمه وهو ما بين الدنيا والآخرة قال تعالى {ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون} وهذا البرزخ يشرف أهله فيه على الدنيا والآخرة وسمى عذاب القبر ونعيمه وأنه روضة أو حفرة نار باعتبار غالب الخلق فالمصلوب والحرق والغرق وأكيل السباع والطيور له من عذاب البرزخ ونعيمه قسطه الذى تقتضيه أعماله وإن تنوعت أسباب النعيم والعذاب وكيفياتهما فقد ظن بعض الأوائل انه إذا حرق جسده بالنار وصار رمادا وذرى بعضه في البحر وبعضه في البر في يوم شديد الريح أنه ينجو من ذلك فأوصى بنيه أن يفعلوا به ذلك فأمر الله البحر فجمع ما فيه وأمر البر فجمع ما فيه ثم قال قم فإذا هو قائم بين يدى الله فسأله ما حملك على ما فعلت فقال خشيتك يا رب وأنت أعلم فما تلافاه أن رحمه فلم يفت عذاب البرزخ ونعيمه لهذه الأجزاء التي صارت في هذه الحال حتى لو علق الميت على رؤوس الأشجار في مهاب الرياح لأصاب جسده من عذاب البرزخ حظه ونصيبه ولو دفن الرجل الصالح في أتون من النار لأصاب جسده من نعيم البرزخ وروحه نصيبه وحظه فيجعل الله النار على هذا بردا وسلاما والهواء على ذلك نارا وسموما فعناصر العالم ومواده منقادة لربها وفاطرها وخالقها يصرفها كيف يشاء ولا يستعصى عليه منها شيء أراده بل هى طلوع مشيئته مذللة منقادة لقدرته ومن أنكر هذا فقد جحد رب العالمين وكفر به وأنكر ربوبيته."

(فصل الأمر التاسع أنه ينبغى أن يعلم أن عذاب القبر ونعيمه اسم لعذاب، ص: ٧٣، ط: دار الكتب العلمية)

تسکین الصدور میں ہے:

"بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میت کا جسم محفوظ نہیں رہتا، مثلاً وہ آگ  میں جلادیا جاتا ہے یا دریا بُرد ہوجاتا ہے اور اس کو مچھلیاں وغیرہ جانور ہڑپ کرجاتے ہیں یا درندے اور پرندے اس کو کھا جاتے ہیں اور قبر میں دفن کرنے کی نوبت  ہی نہیں آری اور ظاہر بات ہے کہ سوال قبر اور قبر کی راحت یا تکلیف وعذاب اس کے بارے میں بھی ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں حضرات متکلمینؒ، فقہاءؒ، اور شراحِؒ حدیث کے سامنے باطل فرقوں کی طرف سے یہ اشکال پیش آیا کہ جب ان لوگوں کو قبروں میں دفن ہی نہیں کیا گیا، تو ان کے متعلق قبر میں سوال اور راحت وعذابِ قبر کا کیا مطلب؟ اس مُشکل سوال  سے جو مخلص ان حضرات نے تلاش کیا ہے وہ یہ ہے کہ قبر صرف اس حِسی گڑھے کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ برزخ علیین اور سجین کے اس مقام کا نام بھی ہے جو  نیکوں اور بدوں کی ارواح کا مستقر ہےاور ان لوگوں کے لیے وہی مقام قبر ہے اور ان کی راحت وعذاب کا محل بھی وہی ہے۔ لہٰذا سوالِ قبر  اور راحت وعذاب  سب کے لیے ہے صرف انہی لوگوں کے لیے نہیں جو مٹی کے گڑھے میں دفن کیے جاتے ہیں۔"

(باب اول، قبر کا مجازی معنیٰ، ص: ٩٢، ط: مکتبہ صفدریہ)

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

"فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ.

ترجمہ: سو آج بچائے دیتے ہیں ہم تیرے بدن کو تاکہ ہووے تو اپنے پچھلوں کے واسطے نشانی، اور بیشک بہت لوگ ہماری قدرتوں پر توجہ نہیں دیتے۔

معارف ومسائل

پہلی آیت میں فرعون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی میں سے نکال دیں گے، تاکہ تیرا یہ بدن پچھلے لوگوں کے لیے قدرتِ خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔

اس کا واقعہ یہ ہے کہ دریا سے عبور کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو وہ لوگ فرعون سے کچھ اس قدر مرعوب ومغلوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فرعون ہلاک  نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی اور دوسروں کی عبرت کے لیے دریا کی ایک موج کے ذریعہ فرعون کی مردہ لاش کو ساحل پر ڈال دیا جس کو سب نے دیکھا اور اس کے ہلاک ہونے کا یقین آیا، اور اس کی یہ لاش سب  کے لیے نمونۂ عبرت بن گئی، پھر معلوم نہیں کہ اس لاش کا کیا انجام ہوا، جس جگہ فرعون کی لاش پائی گئی تھی آج تک وہ جگہ جبلِ فرعون کے نام سے معروف ہے۔

کچھ عرصہ ہوا اخباروں میں یہ خبر  چھپی کہ فرعون کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی  اور عام لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا، اور وہ آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے ؛ کیوں کہ لفظ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں، اس زمانے میں مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا۔

مگر کچھ عجب نہیں کہ قدرت نے جس طرح غرق شدہ لاش  کو عبرت کے لیے کنارہ پر ڈال دیا تھا اسی طرح آئندہ نسلوں کی عبرت کے لیے اس کو گلنے سڑنے سے بھی محفوظ رکھا ہو، اور اب تک موجود ہو۔"

(سورۂ يونس، آیت نمبر: ٩٢، جلد : ٤، صفحہ:٥٦٧، ط: مکتبہ معارف القرآن )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں