بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض، واجب، سنت، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح کی تعریفات


سوال

سنت، فرض، واجب، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

۱۔ سنت کا لغوی معنی     لغوی معنی: خاص طریقہ، ضابطہ، طرز، وغیرہ۔ سنت کا اصطلاحی معنی     محدثین کے نزدیک سنت: ہر وہ قول، فعل، تقریر اور صفت ہے (چاہے پیدائشی ہو یا بعد میں اپنائی ہوئی ہو) جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کی جائے، برابر ہے کہ وہ رسالت ملنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔     فقہاء کے نزدیک سنت کی تعریف یہ ہے کہ: ہر وہ فعل جس کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبادت کی حیثیت سے ہمیشہ کیا ہو اور کبھی کبھار  اس کو چھوڑا بھی ہو۔     سنت کی پھر دو قسمیں ہیں :

سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔

۲۔ "فرض" اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی دلیل مثلًا: قرآن کریم کی کسی واضح آیت یا متواتر حدیث سے ثابت ہو، نیز فرض کا منکر کافر ہے۔

۳۔"واجب"وہ حکم کہلاتا ہے جو  ظنی دلیل سے ثابت شدہ ہو، نیز فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کا ترک کرنے والا فاسق کہلاتاہے۔

۴۔ مستحب کا معنی ہے وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو، لیکن اس پر رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پابندی نہ فرمائی ہو، کبھی وہ عمل کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو۔

۵۔ حرام وہ ہے جس سے شرعا سختی سے روکا گیا ہو  دلیل قطعی کے ساتھ۔

 ۶۔"مکروہ" ناپسندیدہ کو کہتے ہیں، اورفقہاء نے اس کی دوقسمیں لکھی ہیں: مکروہِ تحریمی : "تحریمی" کا مطلب جو حرام سے قریب ہو۔ یعنی  "مکروہِ تحریمی": شرعاً وہ ناپسندیدہ امر ہے جو حرام سے قریب ہو، اور اس کا کرنے والا عتاب (اللہ اور اس کے رسول کے غصہ وناراضی) کا مستحق ہو۔

مکروہِ تنزیہی :" مکروہِ تنزیہی": وہ ہے جو حلال سے قریب ہو۔

۷۔ مباح: جس کام کا کرنا اور نہ کرنا دونوں حکم کے اعتبار سے برابر ہوں یعنی اس کے کرنے میں نہ ثواب ہے اور نہ ہی ترک میں کوئی گناہ۔ اشیاء میں اصل حکم اباحت ہی کا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومستحبه) ويسمى مندوبًا وأدبًا وفضيلة، وهو ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم مرةً وتركه أخرى، وما أحبه السلف."

(جلد۱، ص: ۱۲۳، ط: سعید )

البحرالرائق میں ہے :

"والمكروه في هذا الباب نوعان أحدهما ما كره تحريما وهو المحمل عند إطلاقهم الكراهة كما ذكره في فتح القدير من كتاب الزكاة وذكر أنه في رتبة الواجب لا يثبت إلا بما يثبت به الواجب يعني بالنهي الظني الثبوت وأن الواجب يثبت بالأمر الظني الثبوت ثانيهما المكروه تنزيها ومرجعه إلى ما تركه أولى وكثيرا ما يطلقونه كما ذكره العلامة الحلبي في مسألة مسح العرق فحينئذ إذا ذكروا مكروها فلا بد من النظر في دليله فإن كان نهيا ظنيا يحكم بكراهة التحريم إلا لصارف للنهي عن التحريم إلى الندب فإن لم يكن الدليل نهيا بل كان مفيدا للترك الغير الجازم فهي تنزيهية".

(جلد ۴، ص:۱۰۶، سعید)

وفیہ ایضاً:

"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها".

(جلد۱، ص:۴۹، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘

(جلد۲ ، ص:۱۲، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل."

(جلد۱، ص:۴۷۷، ط: سعید)

تلخیص الاصول میں ہے:

"الحرام: هو ما ثبت بدليل قطعي دلالةً وثبوتاً مع الشدة في المنع وهو في مقابلة الفرض من المأمورات عند الحنفية."

(جلد۱ ص:۲۸، ط: مرکز المخطوطات والتراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں