بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فنگر ڈیوائس کے ذریعہ رقم نکالنے کی اجرت لینا


سوال

ہمارے ملک ہندوستان میں ایک پہچان ہے ’’آدھار کارڈ‘‘، اور اس میں انگلی کے تمام نشان ریکارڈ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس کو اپنے بینک اکاؤنٹ سے منسلک کراتا ہے تو وہ شخص کسی بھی جگہ صرف آدھار نمبر دے کر اپنی انگلی کا نشان لگاتا ہے تو اس کے اکاؤنٹ کی ڈیٹیل شو ہونے لگتی ہے۔اور وہ شخص اب اپنا بیلینس بھی چیک کرسکتا ہے اور اپنا پیسہ بھی نکال سکتا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ میں  فنگر ڈیوائس رکھا ہوں اور اس کے ذریعہ لوگوں کے اکاؤنٹ سے ان کا پیسہ نکال دیتا ہوں، جس کے ذریعہ ان کو آسانی بھی ہوجاتی ہے کہ بینک کی بھیڑ اور نمبر سے بچ جاتے ہیں اور میں ان سے ایک ہزار پہ 10 روپیہ نکلوائی لیتا ہوں، اگر دس ہزار ہے تو سو روپیہ۔

تو  کیا میرا دس روپیہ لینا درست ہوگا، جب کہ میرا نیٹ بھی خرچ ہوتا ہے،  نیز اسی کے لیے 2700 روپیہ کا فنگر ڈیوائس بھی خریدا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر ایسی ڈیوائس کا استعمال قانوناً جرم نہ ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہوگی، نیز مذکورہ سہولت کی فراہمی پر بطورِ محنتانہ  ہر   100 روپے پر  10 لینا جائز ہوگا،  بشرطیکہ ڈیوائس رکھنے والے کو کمپنی کی طرف سے اس سہولت کی فراہمی پر کسی قسم کی اجرت نہ دی جاتی ہو،  بصورتِ دیگر ڈیوائس کمپنی کی جانب سے ہر ٹرانزیکشن پر اگر منافع دیا جاتا ہو تو اس صورت میں صارف سے 10 روپے وصول کرنا درست نہ ہوگا۔ نیز محنتانہ کی رقم الگ سے وصول کی جائے، بینک سے نکالی رقم سے کاٹ کر بقیہ رقم صارف کو نہ دی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وَجُمْلَةُ الْأَمْرِ أَنَّ كُلَّ مَا قَيَّدَ بِهِ الْمُوَكِّلُ إنْ مُفِيدًا مِنْ كُلِّ وَجْهٍ يَلْزَمُ رِعَايَتُهُ أَكَّدَهُ بِالنَّفْيِ أَوْ لَا كَبِعْهُ بِخِيَارٍ فَبَاعَهُ بِدُونِهِ، نَظِيرُهُ الْوَدِيعَةُ إنْ مُفِيدًا كَ " احْفَظْ فِي هَذِهِ الدَّارِ " تَتَعَيَّنُ، وَإِنْ لَمْ يَقُلْ لَا تَحْفَظْ إلَّا فِي هَذِهِ الدَّارِ لِتَفَاوُتِ الْحِرْزِ وَإِنْ لَا يُفِدْ أَصْلًا لَا يَجِبْ مُرَاعَاتُهُ كَبِعْهُ بِالنَّسِيئَةِ فَبَاعَهُ بِنَقْدٍ يَجُوزُ، وَإِنْ مُفِيدًا مِنْ وَجْهٍ يَجِبُ مُرَاعَاتُهُ إنْ أَكَّدَهُ بِالنَّفْيِ وَإِنْ لَمْ يُؤَكِّدْهُ بِهِ لَا يَجِبُ". (كتاب الوكالة، فَصْلٌ لَايَعْقِدُ وَكِيلٌ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ وَالْإِجَارَةَ وَالصَّرْفَ وَالسَّلَمَ، ۵ / ۲۲۳، ط: دار الفكر)

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"تَلْزَمُ الْأُجْرَةُ بِاسْتِيفَاءِ الْمَنْفَعَةِ مَثَلًا لَوْ اسْتَأْجَرَ أَحَدٌ دَابَّةً عَلَى أَنْ يَرْكَبَهَا إلَى مَحَلٍّ ثُمَّ رَكِبَهَا وَوَصَلَ إلَى ذَلِكَ الْمَحَلِّ يَسْتَحِقُّ آجِرُهَا الْأُجْرَةَ". ( الْبَابُ الثَّالِثُ فِي بَيَانِ مَسَائِلَ تَتَعَلَّقُ بِالْأُجْرَةِ، الْفَصْلُ الثَّانِي فِي بَيَانِ الْمَسَائِلِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِسَبَبِ لُزُومِ الْأُجْرَةِ وَكَيْفِيَّةِ اسْتِحْقَاقِ الْآجِرِ الْأُجْرَةَ، ۱ / ۸۹، المادة، ۴۶۹، ط: نور محمد- كراتشي) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں