بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فائنانس پر گاڑی یا موبائل خریدنا


سوال

دریافت طلب امر یہ ہے کہ فائنانس پر گاڑی یا موبائل خرید سکتے ہیں؟ براہ مہربانی شریعت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

ہماری  معلومات کے  مطابق فائنانس کمپنی اپنے صارف کے ساتھ ’’حوالہ‘‘ والا معاملہ کرتی ہے، یعنی اپنے صارف کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کردیتی ہے اور پھر بعد میں قسطوں میں اپنے صارف سے وصول کرلیتی ہے،  اس معاملہ میں فائنانس کمپنی  دکاندار کوتو نقد قیمت اداکردیتی ہے اور  خریدار سے قسط وار وصول کرتی ہے اور اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ بر وقت قسط کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں   خریدار کوجرمانہ دیناپڑے گا ،جب کہ یہ شرط شرعاجائز نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یہ  تعزیر  بالمال (مالی جرمانہ)ہے جوکہ شرعًا  جائزنہیں ہے۔

لہذا  فائنانس پر گاڑی ،  موبائل یا کوئی  اور چیز لینا شرعاً ناجائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله: وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.

(کتاب الحدود ، باب التعزیر،مطلب فی التعزیر باخذالمال، ج:4،ص:61،ط:سعید)

النهرالفائق میں ہے:

وفي (البزازية) وتعليق القرض حرام والشرط لا يلزم انتهى، وهو محمول على ما لو علقه بشرط فيه منفعة للمقرض."

(باب المتفرقات،ج:3،ص:526،ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں