بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فناء شہر کے متعلق مفتی بہ قول کی تعیین


سوال

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ شہر یا قریہ کبیرہ سے دور دیہات میں نماز جمعہ صحیح ہے ، کیونکہ یہ توابع مصر میں آتے ہیں ، جب کہ توابع مصر کے بارے میں فقہاء کرام سے متعدد اقوال منقول ہیں جو حسب ذیل ہیں۔

"لاتجب الجمعه الا على اهل المصر ومن كان ساكن في توابعه وكذا لا يصح اداء الجمعۃ الا في مصر وتوابعہ" . (بدائع الصنايع فصل في بيان شرائط الجمعۃ) واما تفسير توابع المصر فقد اختلفوا فيها:

(1) رويء عن ابي يوسف ان المعتبر فيه سماع النداء ان كان موضعا يسمع فيه النداء من المصر فهو من توابع المصر واذا خلا .

(2) وروي ابن سماعۃ عن ابي يوسف كل قريه متصلۃ بالربض المصر فهي من توابعه وان لم تكن متصلۃ بالربض فليست من توابع المصر.

(3) وقال بعضهم: ما كان خارجا عن عمران المصر فليس من توابعه.

(4) وقال بعضهم: المعتبر فيه قدر ميل وهو ثلث وهو فرسخ.

(5)وقال بعضهم: ان كان قدر ميل او ميلين فهو من توابل المصر والا فلا.

(6) وقال بعضهم: قدر بستۃ اميال.

(7) وقال قدره بثلاثۃ اميال.

(8) وعن ابي يوسف رحمه الله انها تجب في ثلاث فراسخ.

(٩)وقال بعضهم : ان امكنه ان يحضر الجمعه ویبیت جاهله من غير تكلف تجب عليه الجمعه والا فلا وهذا حسن.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع)

مذکورہ بالا اقوال کی  بناء پر بندہ کے ذہن میں کچھ اشکالات پائے جاتے ہیں ، ان اقوال کا آپس میں تعارض نظر آرہاہے،  اور دوسرے کتب معتبرہ سے بھی تعارض ہیں ۔ مثلا: "من کان مقيما في اطراف المصر ليس بينه وبين المصر فرجۃ بل الابنیۃ ... متصلۃ اليه فعليه الجمعۃ وان كان بينه وبين المصر فرجۃ من المزارع فلا جمعه عليه (البحر الرائق) قاضي خان على الهنديه الفتاویٰ التاتارخانيه ". ان اقوال میں راجح اور مفتی بہ قول کی تعین فرما کر مشکور فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں فناء ِشہر کی حد سے متعلق جو   متعدد اقوال ذکر کئے گئے ہیں ،  جن میں مختلف مسافتوں تک فناء شہر کو محدود کیا گیا ہے،ان میں   راجح قول کے مطابق فناء شہر کے لیے کسی ایک مسافت کو معیار نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ فقہاء کرام نے فناءِ شہر کی جو تعریف کی ہے وہ جس علاقہ پر صادق آئے گی اسے فناء  سمجھا جائے گا اور اسی پر فناءِ شہر کا حکم یعنی صحتِ جمعہ و عیدین لاگو ہوگا اور فناء کی تعریف یہ ہے کہ شہر کے باہر کا وہ علاقہ جس سے اہلِ شہر کے مصالح اور ضروریات متعلق ہوں، خواہ وہ علاقہ شہر کے ساتھ متصل ہو یا درمیان میں کھیت وغیرہ کا فاصلہ موجود ہو،نیز امداد الاحکام میں ضروریات کو سکونت کی ضروریات کے ساتھ خاص کیا ہے یعنی وہ علاقہ فناء شہر کہلائے گا جو اہلِ شہر کی ان ضروریات میں استعمال ہوتا ہو جن کا تعلق رہائش اور سکونت کے ساتھ ہے، مطلق ضروریات میں زیرِ استعمال تمام  علاقہ کو فناءِ شہر نہیں کہا جائے گا۔

امداد الاحکام کی پوری عبارت اس طرح ہے:

"در اصل فناء وہ ہے جو آبادی یعنی سکونت کی ضروریات سے ہو، کیوں کہ کچھ ضروریات اہلِ بلد کی بلد میں پوری نہیں ہو سکتیں وسعت نہ ہونے وغیرہ کی وجہ سے، اس لیے آبادی سے باہر ان ضروریات کے لیے جگہ مقرر کی جاتی ہے اور اس جگہ کو ایک قسم کی آبادی سمجھا جاتا ہے، لہذا وہ ملحق بالبلد ہو کر اقامتِ جمعہ کا محل ہو جاتی ہے، پس ضروریات سے خاص وہ ضروریات مراد ہیں جو متعلق بالسکنی ہوں، سب ضروریات مراد نہیں ، ورنہ تمام کھیت، باغات اور لکڑیوں کے جنگل وغیرہ کا فناء میں داخل لازم آتا ہے،  ولا قائل به"۔

(کتاب الصلوٰۃ، ج: 1، ص: 787، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

حاصل یہ ہے کہ کسی علاقہ کے فناء شہر ہونے اور نہ ہونے کا مدار اس کا اس شہر کے مصالح  اور ضروریات کے لیے مستعمل ہونا ہےجیسے گھڑدور یا کھیل کا میدان ، قبرستان وغیرہ ، لہذا اگر کوئی دیہات کسی شہر یا قریۂ کبیرہ  سے کچھ فاصلہ پر ہو، لیکن وہ مستقل آبادی شمار ہوتا ہو اور اس شہر یا قریۂ کبیرہ کے مصالح سے بھی اس کا کوئی تعلق نہ ہو تو وہاں جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس کے برخلاف اگر دیہات کی آبادی اس سے ملحقہ شہر کی آبادی کی ضروریات اور مصالح کا حصہ ہیں تو وہ دیہات فناء  شہر شمارہوگا اور اس میں جمعہ و عیدین کی نماز درست ہوگی۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال: مدت سے اس بابت میں شک ہے کہ جمعہ ہمارے محلہ میں جو کہ شہر الہ آباد سے ایک میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور بالکل دیہات ہے اور ہم لوگوں کو تمام اشیاء ضروری استعمال کی شہر ہی سے لانا پڑتا ہے جائز ہے یا نہیں؟۔۔۔

الجواب:في الدر المختار:(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل في رد المحتار: وإن اعتبرت (لتكية) قرية مستقلة فهي مصر على تعريف المصنف

ان روایات سے مفہوم ہوا کہ اگر یہ مقام جس کی نسبت سوال ہے مستقل آبادی شمار کی جاتی ہے تب تو بوجہ قریہ ہونے کے اس میں جمعہ جائز نہیں اور اگر مستقل آبادی نہیں سمجھی جاتی، بلکہ شہر کے متعلق قرار دی جاتی ہے اور شہر کے مصالحِ عامہ اس سے متعلق ہیں، جسے گھوڑ دوڑ اور چاند ماری(نشانہ بازی کی مشق کی جگہ)  اور لشکر کا پڑاؤ اور گورستان ومثل ذلک تو اس میں جمعہ جائز ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعہ، ج: 1، ص:497، ط: دار العلوم کراچی)

الدر المختار میں ہے:

"(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي".

وفي الرد:"(قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ ملخصا من [تحفة أعيان الغني بصحة الجمعة والعيدين في الفنا] للعلامة الشرنبلالي ".

(‌‌كتاب الصلاة، باب الجمعة ج:2 ص:138 / 139 ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں