بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلٹر پلانٹ لگا کر پانی فروخت کرنا


سوال

زیر زمین پانی کی فروخت کےلیے اگر چند لاکھ روپے کے خرچ سے واٹر فلٹر یشن پلانٹ لگاکر ذریعہ آمدنی بنایا جائے تو اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب

پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہرایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے۔  

  لیکن  اگر کوئی شخص پانی کو   برتن، مشکیزہ، ٹینک، کین وغیرہ میں محفوظ کرلے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے، اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے؛  لہذا مختلف  کمپنیاں جو پانی کو  فلٹر وغیرہ کرکے  بوتلوں میں  بھر کر فروخت کرتی ہیں، شرعاً یہ جائز ہے،  بشرطیکہ حفظانِ صحت کےاصول کے مطابق ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إن صاحب البئرلایملك الماء ... و هذامادام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتیال، کمافي السواني فلاشك في ملکه له؛ لحیازته له في الکیزان، ثم صبه في البرك بعد حیازته".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملك الماء، جلد:5، صفحہ: 67، طبع: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمحرز في كوز وحب) بمهملة مضمومة الخانية (لا ينتفع به إلا بإذن صاحبه) لملكه بإحرازه.

(قوله والمحرز في كوز أو حب) مثله المحرز في الصهاريج التي توضع لإحراز الماء في الدور كما حرره الرملي في فتاواه وحاشيته على البحر، وأفتى به مرارا وقال: إن الأصل قصد الإحراز وعدمه، ومما صرحوا به لو وضع رجل طستا على سطح، فاجتمع فيه ماء المطر فرفعه آخر، إن وضعه الأول لذلك فهو له وإلا فللرافع اهـ ويشهد له ما قدمناه على القهستاني (قوله لا ينتفع به إلخ) إذ لا حق فيه لأحد كما قدمناه (قوله لملكه بإحرازه) فله بيعه ملتقى."

(کتاب احیاء الموات ،فصل فی الشرب جلد:6، صفحہ: 439، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں